رحیم رہبر
’’تڑاک۔۔۔۔!‘‘
اور خوابوں کا وہ حسین و جمیل محل اُسکی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ کر بکھر گیا! وہ دفعتاً ٹوٹے ہوئے خوابوں کے ٹکڑوں کو جمع کرنے لگی، پران ٹوٹے ہوئے خوابوں کے ٹکڑوں سے اُس کے دونوں ہاتھ زخمی ہوئے۔ وہ ششدر رہ گئی ۔ یہ ٹکڑے اتنے تیز کیسے ہوسکتے ہیں اور وہ بھی خوابوں کے!؟
وہ بار بار اپنے خون آلودہ ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔ یک لخط اُسکی زبان سے ایک سرد آہ نکل گئی اور اُس نے زور سے چلایا۔۔۔ ’’میرے خواب قتل ہوئے ہیں!‘‘
سروہ کی طرح اُس کے خواب بھی جوان تھے۔ کتنی بھولی بالی تھی!
’’سروہ۔۔۔ کون سروہ؟‘‘ ماسٹر ہیرا لال نے انہماک سے پوچھا۔
’’وہی سروہ جو آپ کے پاس ٹیوشن پڑھنے آتی تھی‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’اُوں۔۔۔ پھر۔۔۔ پھر وہ سروہ کہاں گئی !؟‘‘ ماسٹر ہیرالال نے تعجب سے پوچھا۔
’’سروہ ایم اے پاس کرنے کے بعد ٹیچر بن گئی اور وہ ایک ہائی سکول میں پڑھاتی تھی۔ لیکن سروہ کو شعر و شاعری کی لت پڑ گئی۔ وہ شاعرہ بن گئی اور ترنم تخلص رکھا۔ پرسوں کے مشاعرے میں جس ترنم کو آپ نے سُنا اور جس کے کلام سے آپ محظوظ ہوئے دراصل وہ سروہ ہی ہے۔
’’او آئی سی‘‘(Oh! I see)ماسٹر حیران ہوئے، وہ چونک گئے،
’’پھر۔۔۔پھر کیا ہوا۔۔۔ کہاں گئی وہ شاعرہ؟‘‘ ہیرا لال نے پھر حیرت سے پوچھا
’’ماسٹر جی! ترنمؔ کی شادی ایک انجینئر سے ہوئی جو رشتے میں اُس کا پھوپھیرا بھائی بھی تھا۔ شادی کے بعد چار سال کا عرصہ میاں بیوی کے درمیان سکون سے گذرا۔ اس دوران ترنم نے ایک بچے کو بھی جنما اور اس بچے کا نام ترنم نے خود تجویز کیا ترنم ریاض۔۔۔‘‘
’’چار سال کے بعد کیا واقعہ ہوا؟‘‘ ہیرا لعل نے پوچھا
’’ماسٹر جی! انجینئر کو اپنی بیوی ترنم کا ادبی محفلوں میں جانا پسند نہیں تھا۔ اس لئے اُس نے ترنم کو شاعری ترک کرنے کے لئے کہا۔ لیکن ترنم نے اپنے شوہر کے حکم کو یکسر ٹھکرادیا۔ یہاں سے اِن دونوں میاں بیوی کا رشتہ دھیرے دھیرے کریک (Crack)ہوتا گیا۔۔۔! اور رشتے میں دوریاں بڑھنے لگیں!‘‘
’’اچھا۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ان کی شادی کی دسویں سالگرہ تھی۔ ترنمؔ نے اپنے گھر میں ایک محفل شاعرہ کا اہتمام کیا تھا۔ اُس نے دس شعرا کو مدعو کیا تھا، جن میں چار مرد اور چھ خواتین تھیں۔ ترنم نے آکر پر اپنا کلام سنایا۔ اُس نے نظم سنائی جس کا عنوان ’’جنون‘‘ تھا۔ نظم اتنی زوردار تھی کہ سُننے والوں کی آنکھیں نم ہوئیں۔ آخر پر صدرِ محفل نے ترنم کو عصر حاضر کی ایک معتبر شاعرہ کہہ کر اس کو صوبائی مشاعرے میں شرکت کرنے کے لئے دعوت دی جو اِسی مہینے کی بارہ تاریخ کو آڈیٹوریم میں منعقد ہونے جارہا تھا۔ مشاعرہ شام 7بجے اختتام کو پہنچا۔ لیکن۔۔۔۔!‘‘
’’ماسٹر جی اب تک وہ کریک Crackبڑھ چکا تھا۔ محفل کے اختتام پر انجینئر شعرائے کرام سے مخاطب ہوا۔ ‘‘آئندہ میری بیوی کبھی بھی اور کسی بھی مشاعرے میں شمولیت نہیں کرے گی!‘‘ آپ لوگ اب جاسکتے ہیں‘‘۔ شعرا خواتین و حضرات ترنم کے دولت خانے سے اُداس ہوکر نکل گئے۔ رات کے کھانے کے بعد ترنم نے اپنے شوہر سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ انجینئر نے ترنم کو غصے میں اپنا فیصلہ سنایا۔
’’میں شاعری سے سنیاس کیوں لوں‘‘۔ ترنم نے پوچھا۔
’’بس مجھے شاعری پسند نہیں ہے۔‘‘ انجینئر پھر غصے میں بولا۔
’’پھر میرا فیصلہ بھی سُن لو میں خود کو شاعری کے جنون سے جُدا نہیں کرسکتی ہوں۔ میں شاعرہ ہوں اور شاعری میرا غرور ہے‘‘۔
انجینئر غصے سے گُرایا۔ اُس نے ترنم سے کہا۔
’’اگر ایسی بات ہے تو میں تم سے الگ ہورہاہوں اور میں تمہیں فارغ کرتا ہوں۔‘‘
اپنے شوہر کا کربناک فیصلہ سُن کر اس کے پائوں تلے زمین سرک گئی۔ وہ آنسوئوں میں بھیگ گئی اور شب بھر کروٹیں بدلتی رہی۔
صبح سویرے ترنم اپنے بچے کو لیکر کپڑوں اور دیگر سامان سے بھری اٹیجی کے ساتھ اُس بستی میں آئی جہاں اُس کی ڈیوٹی تھی۔ یہاں اُس نے ایک مکان کرایہ پر لیا۔‘‘
’’وہ میکے کیوں نہیں چلی آگئی؟‘‘ ماسٹر جی نے پوچھا۔
’’میکے میں اُس کا کوئی نہیں تھا۔ اُس کے والدین اُس کی شادی کے دوسال بعد یکے بعد دیگرے وفات پا گئے تھے۔ ترنم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ وقت زخموں کا مرہم کرتا ہے۔ اب ترنم ٹیچر سے ماسٹر بن گئی تھی۔ اُس کی ترقی اب ماسٹر گریڈ میں ہوئی تھی اور اب ترنم ریاض اُس کا وہ اکلوتابیٹا ڈاکٹر ترنم ریاض بن چکا تھا۔ اب ترنم شعرا کی کہکشان میں خود کو بہت اچھی طرح تخلیق کررہی تھی۔ اسی کرایہ کے مکان میں اُس نے اپنے بیٹے کی شادی بھی کی۔ ڈاکٹر ترنم ریاض شادی کے بعد کرایہ مکان سے اپنے مکان میں ماں اور بیوی کو لیکر منتقل ہوا۔ ماں چاہتی تھی کہ وہ اس نئے مکان میں ایک محفل مشاعرہ کا اہتمام کرے لیکن بیٹے نے ایسا کرنے سے منع کیا! اُس نے ماں کی ایک بھی نہ سُنی۔ ماں افسردہ ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’نیا مکان خریدنے کے لئے پیسے میں نے دیئے۔۔۔ پڑھائی کا سارا خرچہ میں نے برداشت کیا۔۔۔ شادی میرے پیسوں سے ہوئی۔۔۔ پھر میرا بیٹا احسان فراموش کیسے بن سکتا ہے۔۔۔ کیا میں نے اس کو یہ سب کچھ دیکھنے کے لئے جوان کیا ہے۔۔۔۔‘‘ ماں سوچ کے ساغر میں ڈوب گئی!
غم زدہ ماں نے بیٹے سے پھر اپنی مانگ دہرائی۔ لیکن اس بار بیٹے نے ماں کو شاعری سے مکمل طور سنیاس لینے کیلئے کہا۔
’’بیٹا شاعری ایک مقدس دیوانگی ہے۔ میں اس کے بغیر جی نہیں پائوں گی۔ شاعری میرا جنون ہے۔ شاعری میرا غرور ہے!‘‘
بیٹا زور سے ہنسا اور ماں کی التجا کو مذاق میں لیا۔ یہ سب کچھ ماں کی توقعات کے برعکس ہوا۔ اُس کی آشائوں کی دُنیا لُٹ گئی تھی۔
صبح جب ڈاکٹر ترنم ریاض نیند سے جاگا۔ ماں کو بیٹھک میں نہ پاکر وہ ماں کے کمرے میں چلا گیا۔ ماں بستر پہ ہی تھی۔ اُس نے اماں۔۔۔ اماں کرکے ماں کو جگانے کی کوشش کی۔
پر ماں ترنم نے ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند لی تھیں۔!
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ، بڈگام، کشمیر