سرینگر // شہری ہلاکتوں ،نوجوانوں کی گرفتاریاں،مساجد اور خانقاہوں میں نماز پر پابندی، دفعہ 370کو کمزرور کرنے اور راشن کی قیمتوں میں بیجا اضافے کے خلاف نیشنل کانفرنس کی احتجاجی ریلی کو پولیس نے ناکام بنایا ۔جمعرات کو نیشنل کانفرنس کے سینکڑوں ورکروں نے علی محمد ساگر کی سربراہی میں نوائے صبح کمپلیکس سے راج بھون تک ریلی نکالنے کی کوشش کی ،پارٹی لیڈران کو کشمیرکی موجودہ صورتحال سے متعلق گورنر کوایک یاداشت پیش کرنی تھی۔ ورکروں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر شہری ہلاکتوں ، عوام پر ظلم وجبر ، ٹورسٹ انڈسٹری کو برباد کرنے، چاول ،کھانڈ ، مٹی کے تیل کی قیمتوں میں بے جا اضافے ،مساجدوں ، خانقاہوں میں نماز پر پابندی عائد کرنے ،بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاری کے خلاف نعرے درج تھے ۔ ریلی میں موجود لیڈروں اورورکروں راج بھون تک مارچ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس کی بھاری جمعیت نے ریلی کے شرکاء کو سونہ وار میں گپکار کے قریب روک کرآگے جانے کی قطعی اجازت نہیں دی۔اس دوران مظاہرین نے ’’ جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے ، محبوبہ تیرے ہاتھ میں خون ہی خون ہے ، یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے، کے فلک شکاف نعرے بلند کئے ۔ پولیس نے سلمان علی ساگر کو متعدد وکروں سمیت گرفتارکیا۔مظاہرین نے دھرنا دیا جبکہ کچھ منٹوں کیلئے علی محمد ساگر اور مبارک گل رام منشی باغ پولیس سٹیشن کے نزدیک سڑک پر بیٹھ گئے ۔احتجاجی ریلی کے پیش نظر پونے گھنٹے تک وہاں ٹریفک جام لگ گیا ۔ریلی سے قبل نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے پارٹی ہیڈکوارٹر کے باہر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وادی میں قتل وغارت کا سلسلہ اور گرفتاریاں بھی جاری ہیں، سرینگر کو نظر انداز کیا گیا ہے، شہر کے 7پولیس سٹیشنوں کے تحت بلاوجہ کرفیو رکھا جاتا ہے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں ۔انہوں نے کہانیشنل کانفرنس کے دور میں جو کام ہاتھ میں لئے گئے تھے اُن کو بند کیا گیا ہے ۔ساگر نے کہا کہ جب سے یہ حکومت معرض وجود میںآئی ہے تب سے ریاست خصوصاً وادی بے چینی کی نذر ہوگئی ہے، قتل و غارت گری، لاقانونیت اور فرقہ پرستی عروج پر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس ،وی ایچ پی ، شیو سینا ، بجرنگ دل اور ہندو مہاسبھا تنظیمیں ریاستی سرکار چلا رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہجنوبی کشمیر میں دہشت کا ماحول ہے جبکہ وسطی کشمیر ایک قید خانے میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے اور شمالی کشمیر میں بھی آئے روز مظالم کی نئی نئی داستانیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں،گویا وادی کو ایک اذیت خانہ میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ساگر نے کہا کہ پیلٹ سے نوجوانوں کو نابینا اور اپاہج بنانا بھی معمول بن کر رہ گیا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کے ریکارڈ مات کرنے والوں کو اعزازات سے نوازا جارہاہے۔ بیروہ کے فاروق ڈار کو جیپ سے باندھے والے افسر کو جہاں ایوارڈ دیا گیا وہیں مژھل فرضی انکائونٹر میں ملوث 5فوجی اہلکاروں کی عمر قید کی سزا نہ صرف معطل کی گئی بلکہ اُنہیں ضمانت پر رہا بھی کیا گیا۔ ساگر نے کہا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کشمیر میں جنگل راج قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ370کو آئے روز کمزور کیا جارہا ہے کیونکہ محبوبہ مفتی کی سربراہی والی حکومت نے اس کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں۔این آئی اے کی جانب سے حریت لیڈران کی گرفتاریوں پر میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ساگر نے کہا کہ یہ کام حکومت کا ہے اور اس کا جواب حکومت کو دینا چاہئے آخر اس پر حکومت چپ کیوں ہے کیوں اُس پر کوئی جواب نہیں دیا جاتا ہے ۔