ڈاکٹر مدثر احمد غوری
امن برصغیر کی ضرورت ہے ۔ روزانہ لائن آف کنٹرول پر عورتوں، مردوںاور بچوں کے مر جانے کی خبریں موصول ہوتی ہیں۔اس طرح کے پیچیدہ حالات میںجب ایک وقت کی روٹی کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے بچے، مرد، عورتیں اور بوڑھے آپ کو نظر آئیں نیز ان گھمبیر حالات میں ساحل پر پہنچ کر پانی میں سو جانے والے بچے آپ کو نظر آئیں تو ایسے المناک مناظر جنہیں دیکھ کر اپنے گھر نرم بستراور گرم کھانوں پر شرم آئے۔ دل نے ہمیشہ یہی چاہا دنیا امن کے ہنڈولے میں جھولتی ہو لیکن ایک ایسی صدی میں پیدا ہونا مقدر ہوا جس میں ہر طرف تعصب اور تشدد کا بول بالا ہے۔ 50 کی دہائی تھی جب تقسیم کو برصغیرکے لیے نسخۂ شفا بتایا جاتا تھا مگرجب قوم پرستی کا مطلب عسکری طاقت سےجڑجائے، جب خبروں کی سرخیاں جنگی نعروں میں بدل جائیںاور جب دلیل کی جگہ جذبات لے لیںتو تنائو اور تعصب کا قائم رہنا ضروری بنتا ہے اور پھر اس ضمن میںایک بنیادی سوال بھی اٹھتا ہے۔ان دو سرحدوں کے بیچ رہنے والے انسانوں کا کیا ہوگا؟یہ سوال کوئی سیاسی نعرہ نہیںبلکہ درد سے بھری وہ فریاد ہے جو کشمیر پر لگے زخموں سے جنم لیتی ہے۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ایک پرانا زخم ہے جو ہر چند سال بعد تازہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہر بار جب جنگ کے طبل بجتے ہیں، ہر بار جب توپوں کا رخ سرحدوں کی طرف مڑتا ہے تو سب سے زیادہ درد ایک عام کشمیری کو ہی سہنا پڑتاہے۔کشمیر محض ایک متنازع خطہ نہیں ہے یہ ایک خوبصورت اور شاندار ثقافت کا نام ہے،یہ ایک تاریخ ہے وہ تاریخ جو ایک کشمیری کے لیے باعث افتخار ہے اور ایک خواب ہے جس کی تعبیر ہر اعتبار سے روشنی سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہاں کے لوگ صرف گنتی کے اعداد و شمار نہیںبلکہ احساسات سے جڑی ان کی زندگیاں آج بھی بیچ منجدھار میں اٹکی ہوئی ہیں اور جب بھی جنگ کی فضا بنتی ہے یہی زندگیاں سب سے پہلے کچلی جاتی ہیں اور پھر پانی کی تیز رَو میں بہہ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجاتی ہیں۔
جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی۔ یہ جنگ ایک بچے کے ذہن سے بھی لڑی جاتی ہے جو ہر روز گولیوں کی آوازوں میں پلتا ہے۔ یہ ان ماں باپ کے دل سے لڑی جاتی ہے جنہیں ہر لمحہ اپنے بچوں کی سلامتی کا خوف اندر ہی اندر کھایا جاتا ہے۔ یہ ایک دکاندار، ایک طالب علم، ایک کسان کی روزمرہ زندگی سے لڑی جاتی ہے جو ہر لمحہ غیر یقینی کا شکار ہوتے ہیں۔جب ہم جنگ کی بات کرتے ہیںتو اس کا براہ راست اثر تعلیم، صحت ،تجارت اور سب سے بڑھ کرروشن مستقبل کی اُمید پرپڑتا ہے۔ جو کسی بھی قوم و ملک کے لیے روشن مستقبل کی علامت نہیں ہے۔دونوں ممالک کی حکومتوں سے ایک سوال ہے:کیا آپ اپنی سیاسی ضد کی قیمت کشمیر کے مستقبل سے وصول کریں گے؟کیا وقت نہیں آ گیا کہ دشمنی کے بجائے مکالمہ اپنایا جائے؟ کیا ریاستی طاقت کا مطلب یہی ہے کہ عام انسان کی آواز دبا دی جائے؟آج جب دونوں ممالک جوہری طاقتوں کے حامل ہیں توجنگ کا تصور کرنا ہی کم عقلی کی علامت ہے۔ یہ صرف ایک خطے کی بات نہیںبلکہ جنگ پوری انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اگر ایک معمولی غلطی بھی ہوجائے تو نتائج بھیانک ہوں گے۔عالمی دنیا بھی اس منظر کو دیکھ رہی ہے۔ نہ صرف ایک تماشائی کے طور پر بلکہ اس امید کے ساتھ کہ شاید برِصغیر کے دو طاقتور ممالک صلح اور سمجھداری کی مثال قائم کرلیں۔ ایک ایسا وقت جب دنیا کئی محاذوں پر جل رہی ہے، جنوبی ایشیا کو مثال بننے کی ضرورت ہے عبرت نہیں۔دونوں مملک سے گزارش ہے اوریہ گزارش انسانوں کے تئیں محبت سے پیدا ہوئی ہے—کشمیر کے لیے اور ان لاکھوں انسانوں کے لیے جو صرف امن چاہتے ہیں ایک ایسا امن جو پائیدار ہو، حقیقی ہواور دیرپا ہو۔
لیڈران سے سوال ہے:کیا آپ کا نام تاریخ میں ایک اور جنگ کے آغاز کے لیے لکھا جائے گایا امن کی ایک نئی شروعات کے لیے؟کیا آپ طاقت کے نشے میں کشمیریوں کے درد کو بھول جائیں گے یا ان کے خوابوں کو سچ کرنے کا راستہ چنیں گے؟اور عوام سے گزارش ہے خاص طور پر نوجوانوں سے:اپنی آواز بلند کریں۔ امن کا مطالبہ کریں۔ یہ وقت ہے یہ ثابت کرنے کا کہ ہم نفرت کے وارث نہیںبلکہ امن کی فضا کے علمبردار ہیں۔اب یہاںکے بچوں کوامن اور شانتی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیجیے اور ہاںبرف میں چھپی ہوئی چیخ کو سنا جائے دبایا نہ جائے۔امن کمزوری نہیں—یہ سب سے بڑا حوصلہ ہے اور ملک و قوم کی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے۔
رابطہ۔6005687086
[email protected]