کٹھوعہ میں 8 سالہ کم سن آصفہ کے ساتھ جنسی درندگی اور پھر اُ س کے لرزہ خیز قتل نے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ہلاکے رکھ دیا ہے اور ہر حساس دل ہنوز خوں کے آنسورو رہا ہے۔ معصوم کلیوں کو اس طرح کچلنے ، مسلنے کے اس کریہہ عمل نے مذہب و ملت کی کسی تمیز کے بغیر ہر گوشۂ زمین میں رہنے والے لوگوں کو تڑپا کے رکھاہے ۔ ہر شخص دم بہ خود ہے کہ آخر یہ انسان اس قدر بھی کیا گر سکتا ہے کہ حیوانیت بھی آب آب ہوجائے۔اس معاملہ کے پس منظر میں سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ بھارتی میڈیا جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو پہاڑ بنا کے پیش کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے، اس میڈیا کے ایک بڑے حصے کو آخر اس تعلق سے سانپ سونگھ کیوں گیا ؟ اس کے ساتھ ہی بہت سارے سیاست کاروں کی خاموشی بھی کوئی ایسی گھتی نہیںجو سمجھ میں نہ آئے ۔ ادھر کٹھوعہ میں یہ دِل شکن واقعہ پیش آیا ، اُدھر پاکستان کے قصور شہر میں سات سالہ معصوم زینب کے ساتھ ایک درند صفت انسان نے یہی عمل دہرایا جس کی شکار معصوم آصفہ ہوئی ۔ اسی ملک کے مردان علاقہ کی عاصمہ بھی ایسے ہی خونخوار جنسی بھیڑیوں کے پنجۂ ظلم میں تڑپ تڑپ کر جان دے گئی ۔اِنسنی معاشروں میں ان بہیمانہ واقعات پر فوری طور رد عمل تو ہوتا ہے،احتجاج، دھرنے، لاک ڈاون اور مظاہروں کا سلسلہ تو چل پڑتا ہے، لیکن جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔ اپنے حقیر مفادات کے تحفظ میں مدہوش حکمران طبقہ ان کیسوں کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا یا پولیس اور تحقیقاتی اداروں پر میدانِ سیاست کے جگا دھریوں کی طاقت یا دلالیاں اور رشوتیں بھاری پڑ جاتی ہیں کہ ایسے کمزور کیس بنائے جاتے ہیں کہ اُن کی ٹانگیں عدالت میں جاتے جاتے ہی تھر تھر اہٹ کی شکار ہوجاتی ہیں۔ پھر کیس بہت لمبے چلتے ہیں، پتہ بھی نہیں چلتا انجامِ کار ہوا کیا ، لیکن جن کنبوں پر یہ بجلیاں گر ی ہوتی ہیں ، وہ ساری عمر آہیں بھر تے اور آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ وہ بس زندہ لاشے ہوتے ہیں اور تادم زیست انصاف کا راستہ دیکھتے رہتے ہیں۔
قصور پاکستان کی زینب کا المیہ جوں ہی سامنے آیا تو وہاں کے میڈیا کا مغرب زدہ حصہ بھی وہی ٹکرز چلانے پر مجبور ہوا جو اصلاً تعلیمات ِ اسلامی کا محاصل ہیں کہ بچے کو کسی نا محرم کے ساتھ جانے اور میل جول رکھنے سے روکا جائے ۔ گھر میں استاد بھی پڑھانے آئے تو گھر کا کوئی بڑا ساتھ میں یا نزدیک میں رہے ۔ گھر میں کسی نامحرم کی آمد پر گھر کی خواتین پردے کا خاص خیال رکھیں، خواتین اپنی آوازوں کو لوچ دار نہ بنائیں اور اُن سے کوئی راہ و رسم نہ بڑھائیں ، کوئی دوسرا ممکن ہے شناسا ہی ہو روز تحفے تحائف کیوں لے آتا ہے ؟ اس پر غور ہو۔ بچوں کے ہاتھ میں موبائیل نہ دے کہ یہ بے فکرے شعور سے عاری ہوتے ہیں۔ اس چھوٹے سے ڈبے میں بڑے فاحشات و منکرات کا ایک سیلاب محض ایک کلک کرنے سے اُمنڈ آتا ہے۔ جس سے بچے لازمی طور منفی اثر قبول کرتے ہیںاور اُن کی تاثیرات بھی انتہائی شرم ناک ہوتی ہیں۔ بچے چھوٹے ہوں یا بڑے ان کی کتابوں کو ، الماریوں کوکھنگالتے رہیے کہ کہیں کوئی مشکوک یا قابل اعتراض چیز یا کاغذ اُ س میں چھپا تو نہیں ہے۔ اُن کے حلقہ احباب کو جانچئے کہ اُس کے اخلاق و عادات و اطوار کیسے ہیں، اُن بچوں کو اکیلے میں مت رہنے دیجئے اور اُنہیں متنبہ کیجئے کہ وہ کمرے کی اندر کی کنڈی بند کرکے نہ بیٹھ جائیں ۔ دنیا کے ہر معاشرے میں یہی سننے او رپڑھنے کو ملتا ہے کہ ہوس کی بھوک مٹانے کے کریہہ عمل میں سب سے زیادہ قریبی عزیز ہی ملوث ہوا کرتے ہیں،یا وہ جن کا متاثرہ گھرانے میں ہمدردی اور محبت کی شکل بے باکانہ آمد ورفت ہو۔ قربان جائیے دین فطرت کے ، اُس نے تو گھر والوں تک کو خود اپنے گھروں میں داخلے کے آداب سے واقف کیا ہے۔ ملنے کے لئے آنے والوں کو سلام کرنے سے اپنی آمد کی اطلاع دینے اور تین بار سلام کا جواب نہ آنے پر واپس لوٹنے کی تلقین کی ہے، کسی غیر کو ، نا محرم کو گھر کی ناموس یعنی عورتوں اور بیٹیوں کے کمروں میں جانے اور اُن سے گھل مل جانے سے روکا ہے ۔ ایک مرد او رعورت کا تنہائی میں بیٹھنے کے عمل کو بھی اسلام نے سم ِقاتل ٹھہرایا ہے، یہاں تک کہ باپ اور بھائی بھی ایسا نہ کریں مگر کیا کریں’’ آزاد خیالی‘‘ جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسلام کا ہاتھ انسانی نفسیات کی نبض پر ہے اور انسانی نفس کے سمندر سے شر اور فتنے کی اُٹھنے والی لہروں سے یہ دین واقف ہے اور یہ ا ن فتنہ سامانیوں پر موثر قدغنیں عائد کرتا ہے لیکن عقل کے اندھے ’’روشن خیالوں ‘‘کو کون سمجھائے کہ وہ اپنی احمقانہ زبان جسے ’’قدامت پسندی یا دقیانوسیت‘‘کہتے ہیں، صرف اسی ’’قدامت ‘‘پر عمل پیراہونے میں انسانیت کی عزت و ناموس محفوظ ہے۔ آج جولوگ ’’جدیدیت‘‘ کے ہاتھوں ڈس رہے ہیں ،وہ سرپیٹتے اور بال نوچتے نظر آر ہے ہیں کہ مغرب کو اپنا قبلۂ فکر و نظر بنادیا ، اُس کی تہذیب کے کاسۂ لیس بن گئے ،ہر چیز اُسی کے عینک سے دیکھنے کو سببِ ارتقاء وارتفاع تصور کرنے لگے اور اس کے صلے میں ڈسے گئے ۔ آج خود اس مغر ب کا حال دیکھئے کہ’’ آزاد خیالی ‘‘ کی اس آگ میں جھلس رہا ہے کہ اس سے بچاؤ کی تدبیریں سوجھتی ہی نہیں ۔ دنیا خاص کر مغرب ’’ جنسی آزادی ‘‘کے جس تاریک گڑھے میں گری ہے، اس سے شیشہ گرانِ مغرب کا نکل باہر آنا ا ن کے لئے دشوار ترین ثابت ہورہا ہے ۔مثلاً امریکہ جسے سیکولرازم اور لبرل ازم کی جنت کہا جاتا ہے ،جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ مضبوط جمہوریت ہے ، عدالتی نظام بہتر ہے لیکن دانش افرنگی سے متاثر اور سرمۂ فرنگی سے مخمور آنکھیں ذرا یہ بھی پڑھیں کہ RAPE, ABUSE AND INCERT NATIONAL WORK SHOP [RINN] کی رپورٹ کیا کہتی ہے ۔۔۔کہتی ہے : ا مریکہ میں 1998 سے اب تک RAPE کے 1,77,00,000 واقعات ہوئے ہیں اور ان میں سے 99% ذمہ داروں کو سزا نہیں دی جاسکی، نشانہ بننے والی خواتین میں سے 13% نے خود کشی کرکے اپنا کام تمام کردیا ۔امریکی’’ نظام عدل‘‘ کی بھی داد دیں !RAPE متاثرین میں 90% نوجوان خواتین ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس ملک میں ہر سال RAPE کے 3,21,500 واقعات درج ہوئے ہیں۔ صرف 10 میں سے سات کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیاہ کاری کس نے اُن کے ساتھ انجام دیں۔ امریکہ کی ایک لبرل NEWS AND OPNION WEBSITE جس کا نام HUFF POST ہے ،وہاں سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک میں ہر 98 سینڈ میں کسی نہ کسی پر ایک جنسی حملہ ہوتا ہے اور روزانہ 570 افراد جنسی حملوں کے شکار ہوتے ہیں۔ اتناہی نہیں 28 مئی 2016کو ’’نیویارک ٹائمز ‘‘میں شائع ہونے والی رپورٹ میں امریکہ کے محکمہ دفاع پنٹاگون کے ایک سروے کے حوالے سے کہا گیا کہ صرف 2012میں امریکی فوج میں 26,000 خواتین و حضرات پر جنسی حملے ہوئے ہیں اور صرف 3374 رپورٹ ہوئے ۔اس رپورٹ کو تفصیلی طور پڑھئے تو مغر ب کے چیلوں کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ امریکہ کی معیشت شاندار ہے، کس کو انکار کی مجال ہے۔ تعلیم کی جانب خاص توجہ ہے ،کون اس حقیقت کامنکر ہے، اس کے پولیس اور نظام انصاف کوبھی سراہا جاتا ہے مگر اس کے باوجود ہر 98 سیکنڈ میں ایک جنسی حملہ کس جنگل راج کی خبر دیتا ہے؟ مومن کسی طور مغرب یا مشرق کا حریف نہیں ہوسکتا لیکن اپنے ’’مغر ب زدہ گان ‘‘کا مغرب کے ہاتھ پر آنکھیں بند کر کے بیعت کرنابا ضمیرلوگوں پریشان کرکے رکھتا ہے۔ بایں ہمہ آج مغر ب سے ہی یہ صدائیں اُٹھ رہی ہیں کہ اس طوفانِ بدتمیزی کو اسلام کے سوا کوئی اور روک نہیں سکتا، فکر کی گمراہی اور نظر کے فتن و شر سے اسلام کے بغیر کوئی علاج نہیں ہو سکتا ، اسلام کا فیملی سسٹم ، اس میں ہر فردبشر کی ذمہ داری کا تعین ، اس کے چھوٹے بڑے سے جواب طلبی ،یہی وہ انمول امور ہیں جو اسلام کے دین فطرت ہونے پر دلالت کر تی ہیں۔
اسلام نے حیا کو انسانی اخلاق کا زیور اور گہنہ بتا یا ہے ، اسی حیا کو وسیع معنی میں دیکھ لیجئے تو بات کھل کر سامنے آئے گی کہ اس وصف سے انسان جب ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو پھر دنیا کی کسی بھی برائی کا ارتکاب کرنے میں اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ حیا کی اہمیت کیا ہے، حضرت امام کائنات ﷺ نے مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان فرمایا: ’’ جب تو حیا نہیں کرتا تو جو جی چاہے کر ‘‘۔اس حدیث نبوی ﷺ کے مفہوم کے بحرِ عمیق میں ڈوب جائیے تو پتہ چلے گا کہ حیا باختگی ہی سبھی اخلاقی اور روحانی بیماریوں کی جڑ اورجرائم کی ماں ہے ۔اسی حیا کی بقاء و حفاظت کے لئے خود اور نئی نسل کو بچانے کے لئے جنسی درندگی کے ان مہیب واقعات سے نجات پانے کے لئے لازم ہے کہ ہم اسلام کے نظامِ عفت و عصمت کو پڑھیں ، تفکر کریںاور عملائیں۔اس سیلابِ بلا میں اپنی نئی نسل اور خود کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اسلامی اخلاق و اطوار سے آگہی دلائیں۔ ان سطور کا اختتام اس امر حق پر کرتا ہوں کہ کٹھوعہ میں جنسی درندگی کی زد میں آنے والی آصفہ ہو قصور کی زینب ہو ، مردان کی عاصمہ ہویا دلی کی دامنی، ان کلیوں اور بچیوں پر جبر و قہر کے ہتھوڑوں نے ساری انسانیت رُلایا ضرور لیکن اگر یہ اشک وآہ پر اکتفا کر کے سوگئی اور شر کا دروازہ بند کرنے میں سرگرمِ عمل نہ رہی تو انجام کار ہلاکت اور عذابِ الٰہی ہی ہوگا جو ہماری زینبوں، آصفاؤں ، نیلوفروں اور آسیاؤں کو بھی بلی چڑھا تاجائے گا ؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
فون نمبر 9419080306