یو این آئی
نئی دہلی// سپریم کورٹ نے ایک حکم میں تمام ریاستی حکومتوںاورمرکز کے زیر انتظام علاقوں سے کہا ہے کہ وہ جنسی استحصال کے شکار بچوں کی مدد کیلئے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے رہنما خطوط کے مطابق لازمی طور پر ‘سپورٹ پرسن’ کا تقرر کریں۔جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس این جسٹس کوٹیشور سنگھ کی ڈویژن بنچ نے تمام ریاستی حکومتوںاورمرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت دی کہ وہ ‘سپورٹ پرسن’، ان کی اہلیت اور ذمہ داریوں کو این سی پی سی آر کے رہنما خطوط کے مطابق بچوں کے جنسی جرائم سے تحفظ (پوکسو) قانون کے تحت زیر التوا مقدمات میں مدد فراہم کریں۔ حکم نامے کی تعمیل کی رپورٹ چار ہفتوں میں پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اس حکم سے ملک بھر کی پوسکو عدالتوں میں زیر التوا 2.5 لاکھ مقدمات کے متاثرین کو راحت ملے گی۔خیال رہے کہ سپورٹ پرسن وہ شخص ہوتا ہے جو جنسی استحصال اور ہراساں کیے جانے کا شکار ہونے والے بچوں کی جذباتی اور قانونی طور پر مدد کرتا ہے اور ان کے درد پر قابو پانے اور انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے میں واپس لانے میں مدد کرتا ہے۔بچپن بچاو آندولن (بی بی اے) کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست میں 2022 میں اتر پردیش کے للت پور ضلع میں ایک دلت نابالغ لڑکی کے ساتھ پانچ ماہ تک اجتماعی عصمت دری کی گئی اور جب وہ شکایت کرنے پولیس اسٹیشن گئی تو اسے ایک پولیس افسر نے زیادتی کا نشانہ بنایا بچوں کی حفاظت سے متعلق بچوں کیلئے دوستانہ پالیسیوں اور رہنما خطوط پر عمل درآمد کا حکم دینے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔یہ اطلاع یہاں جاری ایک ریلیز میں دی گئی۔سپریم کورٹ کے حکم کا خیرمقدم کرتے ہوئے جس سے جنسی استحصال کے شکار بچوں کی قانونی جدوجہد کو آسان بنایا جائے گا، این سی پی سی آر کے صدر پریانک کاننگو نے کہا’’یہ ایک قابل ذکر قدم ہے کیونکہ ‘سپورٹ پرسن’ کے بارے میں این سی پی سی آر کے رہنما خطوط کو سپریم کورٹ نے منظور کیا ہے۔ اب این سی پی سی آر کے رہنما خطوط کے نفاذ کے سلسلے میں ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کا ردعمل اہم ہے‘‘۔اس سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کے نامور کارکن بھوون ریبھو نے 2022 میں ایک درخواست میں جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کے لیے ‘سپورٹ پرسنز’ کی لازمی تقرری کا مشورہ دیا تھا۔ اس حکم کو بچوں کے حق میں تبدیلی کا نقیب قرار دیتے ہوئے،ھون ریبھو نے کہا’’یہ ایک تاریخی حکم ہے کیونکہ اب غریب بچے اور جو اپنے حقوق سے بے خبر ہیں، وہ اب تنہا اور غیر محفوظ نہیں رہیں گے‘‘۔