میری نیم کُھلی آنکھوں پر اچانک سینکڑوں سیاہ پردے یوں گرے اور اُٹھے کہ پلک جھپکتے ہی سبھی منظر بدل گئے۔ کوئی عالمِ الغیب تھا جو یکلخت کہیں سے نمودار ہوگیا۔ اب میرے روبرو عجیب و غریب مگر نہایت ہی دلکش بازار جلوہ گر تھا۔ اس اَن دیکھے اور انوکھے مقام کا سماں بیحد خوشگوار تھا۔ یہاں آسمان مانو زمین کے کانوں میں سرگوشیاں کررہا تھا۔ چاند ستارے یوں کہ ہاتھ بڑھایا اور پکڑ لئے۔ یہاں ستارے چاندنی برسا رہے تھے اور چاند ٹھنڈی دھوپ۔ یہ سمجھ پانا دشوار تھا کہ یہ وقت صبح، دوپہر، شام یا رات کا ہے کیونکہ اس بازار کا گوشہ گوشہ طلسمی نُور سے منور تھا۔ دراصل یوں محسوس ہورہا تھا گویا اس جادوئی مقام پر وقت گذرتا ہی نہیں ہوگا۔ موسم بدلتا ہی نہیںہوگا۔ جیسے صدیوں سے سب کچھ اسی طور ٹھہرا ہوا سا ہے۔
دور دور جہاںتک بھی نگاہ جارہی تھی وہاں کشادہ و انتہائی خوبصورت بازار پھیلا ہوا تھا۔ ہر سو رونق تھی، چہل پہل تھی۔ ہر رنگ نسل و عمر کے مرد و زن یہاں یہاں ہشاش بشاش ٹہلتے نظر آرہے تھے۔ دُکانوں پر ہر سطح کا سامان سجا ہوا تھا۔ اس بھرے پُرے و پُرکشش بازار کے دو خاص پہلو نمایاں طور پر مجھے نظر نہیں آرہے تھے بلکہ حیرت زدہ بھی کررہے تھے۔ اوّل یہ کہ کسی بھی دُکان پر کوئی دکاندار موجود نہیں تھا۔ گاہک آتا، اپنی مرضی سے ضرورت کا سامان ناپ تول کر قیمت سونے و چاندی کے سکوں کی صورت وہیں پر ٹنگے ہیرے جواہرات سے جڑے سونے کے ترازو کے قریب کھلم کھلا رکھ کر چل دیتا۔ دوئم اس بازار میں دوائیوں کی ایک بھی دکان موجود نہیں تھی۔
جبھی میری منتشر نگاہ اپنی جانب مبذول ہوئی تو میں نے خود کو اس عالیشان بازار کے کنارے کھڑا پایا۔ چند ثانیے وہیں پر کھڑے کھڑے میں نے خود کو اور اپنی سوچوں کو سمیٹا۔ پھر جھجکتے ہوئے بازار کی چمکیلی سڑک پر قدم رکھ دیا۔ میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔ تبھی بے خیالی میں میری نظر سڑک پر پڑی۔ میں حیران و ششدر رہ گیا۔ میرے پائوں تلے چاندی کی دمکتی ہوئی شفاف سڑک تھی۔ مجھے اپنے پیروں میں نرم و گذار گُد گُدی کا شیریں احساس ہونے لگا۔ ابھی میں اس لذت سے مکمل طور پر آشنا نہیں ہو پایا تھا کہ چلتے چلتے میری نظر ایک بار پھر دائیں بائیں لمبی چوڑی دُکانوں پر پڑی۔ میری حیرت میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ ہر طرف کوئی نئی اور نرالی شئے نگاہوں سے ٹکرا رہی تھی۔ اُدھر بازار کی پُررونق بھیڑ میں اب تک میں نے جتنے بھی چہرے دیکھے تھے وہ سب نامانوس تھے تاہم وہ بڑی اپنائیت سے مُجھے تکتے ہوئے میرے قریب سے گذر رہے تھے۔ پُرسکون کِھلے کِھلے چہرے ، دُنیا کے رنج و الم سے بے نیاز مسکراتے ہوئے چہرے مجھے بہت بھلے لگ رہے تھے۔ ہر چہرے پر اسقدر روحانی کشش تھی کہ نظر پڑتی تو ٹکی ہی رہ جاتی۔ ہر چہرہ مجھے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔
میں نے انجانی جگہ کے اس بارونق بازار میں جس جانب بھی نگاہ اُٹھائی مجھے ایسا ہی پُرسکون و پُرمسرت ماحول نظر آیا۔ میں ہر آنے جانے والے کو چُپ چاپ غور سے دیکھ رہا تھا مگر میری طرف ابھی تک کوئی بھی شخص متوجہ نہیں ہوا تھا۔ البتہ میرے ذہن کے عمیق گوشے میں ایک لاچار سی خواہش ضرور پنپ رہی تھی کہ کاش اس اجنبی بستی میں کوئی اپنا بھی ہوتا۔ جو کم از کم یہ عجیب و غریب معمہ تو حل کرتا۔ یہ تو بتاتاکہ یہ کونسا دیارہے۔ میں ابھی اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ اچانک مجھے اپنے بچپن کا عزیز ترین دوست شبیر حسین ،پپو کے نام سے معروف تھا،حسب عادت مسکراتا ہوا سامنے بیس پچیس گزر کے فاصلے پر اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر لگ بھگ اُچھل پڑے۔ وہ میری جانب آتے ہوئے مجھ پر ٹکٹکی باندھے اور میں اُس کی طرف بڑھتے ہوئے۔ شائد دونوں ہی طرف یہ خوف طاری تھا کہ ایک دوسرے سے نظر ہٹی تو کہیں ہم اس بازار میں گُم نہ ہوجائیں۔ ہم دونوں قریب آئے اور اس تمازت سے بغلگیر ہوئے کہ جذبات کی رو میں بہہ نکلے۔میں پپو سے تین برس کے طول عرصے بعد مل رہا تھا۔ اُسے دیکھ، چھو رہا تھا۔ دراصل تین سال قبل ایک رات اچانک اُسے دل کا دورہ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سدا سدا کیلئے اللہ کو پیاراہوگیا۔ ہم سب روتے رہ گئے۔ موت کا فرشتہ اُسے ہم سے بہت دور لے گیا۔
مگر آج اس انجانی جگہ پر اس غیر متوقع ملاقات نے تو میرے دل و دماغ کو ماؤف ہی کردیا۔ میرے سوچنے سمجھنے کی قوت یکسر ختم ہوگئی۔ میں جذبات کی شدت سے نڈھال ہوگیا۔ میں یہ تلخ حقیقت بھی بھول گیا کہ وہ حیات نہیں ہے۔ دفعتاًمیرے ذہن میں ایک چُبھن سی ہونے لگی… ’’پھر پپو میرے روبرو کیسے…؟‘‘
مگر جس تیری سے یہ ٹیس اُٹھی تھی اُسی رفتار سے اس نے دم بھی توڑ دیا۔ کیونکہ میں پپو کو دیکھ کر اسقدر خوش تھا کہ کوئی دوسرا خیال دماغ میں ٹِک ہی نہیں رہا تھا۔ تبھی دوستی کے جہلم میں بہتے ہوئے میرے منہ سے بے ساختہ نکلا…
’’پپو کیا تم نے 31جون 2016کو کشمیر عظمیٰ کے ادب نامہ میں شائع میری تحریر کردہ کہانی، دُھندلی سیڑھیاں، پڑھی تھی؟ ‘‘
اپنا ہی سوال مجھے سراسراٹپٹا بھی لگا۔ایک شخص جو فوت ہوچکا ہے وہ اخبار کیسے پڑھے گا۔ تاہم پپو نے مسکرا ہوئے جواب دیا،
’’بالکل پڑی تھی، بڑی اچھی کہانی تھی‘‘۔
’’لیکن یہ تو زندہ نہیں ہے۔ پھر اُس نے کہانی کیسے……؟ ‘‘ میرے دل میں پھر وہی سوال اُبھرا۔
’’کیا سوچ رہے ہو تم؟‘‘ پپو نے معنی خیز نگاہوں سے مجھے تکتے ہوئے پوچھا۔ شائد وہ میرے دل کی اُلجھی ہوئی کیفیت کو بھانپ گیا تھا۔ جبھی اُس نے مجھے سے ایسا سوال کیا۔
’’دراصل… میں سوچ رہا تھا… تم اخبار کیسے پڑھ سکتے ہو، تم تو ……!‘‘ میں اپنی بات پوری نہیں کرسکا۔ میں نے سوچا کہیں اس کو بُرا نہ لگے۔ لیکن وہ اُسی جوش و مسرت سے بولا…،
’’ہاں بھئی… میں جانتا ہوں میں مر چکا ہوں۔ لیکن دوست ہم مرے ہوئے لوگ بھی اخبار پڑھ سکتے ہیں‘‘۔ وہ کہتے کہتے ہنس پڑا۔ میں اُس کے منہ نکلا ایک ایک لفظ نہ صرف غور سے سُن رہا تھا بلکہ سمجھنے کی سعی بھی کررہا تھا۔
’’تمہیں معلوم ہے، دھندلی سیڑھیاں، میرے ایک خواب پر مبنی ہے‘‘۔ پپو کی چُپ دیکھ کر میرے لب خودبخود ہلنے لگے…’’وہاں دھندلے آسمانوں میں، میں تم سے اور تمہارے ہمراہ جارہے بے شمار لوگوں سے ملا۔ اُن میں اپنے بیگانے سبھی تھے۔ مگر تم لوگ اُس وقت مکمل اجنبیت سے بھرے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ سُن کر بھی نہ دیکھا نہ سُنا۔ مجھے پہچانا تک نہیں۔ میں چیختا چلاتا رہا۔ تم لوگوں سے منتیں کرتا رہا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ تمہیں بخوبی علم تھا کہ میں تم لوگوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر افسوس مجھے میرے چاچا جی (والد) تک نے بھی نہیں پہچانا اور نہ ہی مجھ سے بات کی۔ میں تو اُن کے انتقال کے بعد ایک زندہ لاش بن گیا۔ ہم ایک دوسرے سے پچھڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ مگر موت نے انہیں مجھ سے جدا کردیا۔ چلو موت کے بعد ہی سہی جب ملے تو کم سے کم مجھے پہچان تو سکتے تھے۔ مجھ سے بات تو کرسکتے تھے۔ مگر نہیں پہچانا۔ اُدھر سال کے اندر اندر تم نے بھی اس چھپن سال کے دوست کو تنہا چھوڑ دیا اور جب ملے تو انجان بن گئے۔ بس چُپ چاپ لب سیئے بے جان پتلوں کی مانند گھنی دھند میں لپٹی دھار دار پگڈنڈی پر ہولے ہولے ایک قطار میں چلے جارہے تھے کسی انجانی منزل کی جانب، دھندلے آسمانوں میں۔ جبکہ میں روتا بلکتا دیوانہ وار ٹھوکر کھا کر دھندلی پگڈنڈی سے باہر جاگرا اور آن کی آن پھر زمین پہنچا۔ تم نہیں جانتے میں چاچاجی اور تم سے جُدا ہونیکا کرب سینے میں لئے ہر لمحہ یہی دعا کرتا رہا کہ بھگوان مجھے بھی تم لوگوں کی فلکی دُنیا میں تمہارے پاس پہنچا دے‘‘۔ یہ کہتے کہتے میرا گلا رُندھ گیا۔
’’دوست دھندلی سیڑھیاں کہانی نہیں حقیقت ہے۔ تمہارا گلہ بھی واجب ہے۔ مگر موت کے بعد کی دُنیا کا دستور الگ ہوتا ہے۔ کچھ سمجھ آتا ہے کچھ نہیں۔ اپنے بس میں کچھ نہیں ہوتا۔ وہ سفر بیخودی و لاعلمی میں ہوتا ہے۔ اس میں نہ نظر نہ منظر نہ کان اور نہ زبان، غرضیکہ کسی کو کسی بھی بات کا احساس نہیں ہوتا۔ تب انسان خود سے بھی بیگانہ ہوتا ہے۔‘‘ پپو بڑی ہمدردی سے دوسری دُنیا کی حقیقت مجھ پر افشاء کرکے میرے مجروح جذبات کو مرہم لگانے لگا۔
جبھی اُس پُر درد خیال نے پھر مجھے افسردہ کردیا۔میں نے پپو کے چہرے پر گہری نگاہ ڈالی۔ میرے روبرو ہمیشہ کی طرف وہی متبسم چہرہ تھا۔ میں بوجھل آواز میں بدبدایا… ’’پپو میں تم سے ملکر خوشی میں یہ بھی بھول گیا کہ تم زندہ ……!!! ‘‘میرا جملہ ادھورا رہ گیا۔ تاہم پپو تاڑ گیا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا تھا۔ اُس کی مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر لاپرواہی سے بولا…’’ارے بھئی موت گالی نہیں ہوتی، تُو گھبرا کیوں رہا ہے۔ اپنی بات پوری کر‘‘۔
دراصل میں تذبذب میں تھا کہ کہیں پپو کے دل کو ٹھیس نہ پہنچے۔ بہر کیف اُس کی بات سن نکر میں نے ہمت بٹوری اور کہا…’’تم ٹھیک کہتے ہو دوست۔ موت گالی نہیں ہوتی۔ مگر موت پھر بھی موت ہوتی ہے۔ نہ کہنے سُننے میں اچھی لگتی ہے اور نہ سامنا کرنے میں۔ ہماری موت پر، تم نہیں جانتے، ہم سب پر کیا گذری تھی۔ بھابھی جی اور ہمارے دونوں بیٹے ابھی تک صدمے سے اُبھر نہیں پائے ہیں۔ ہم سبھی دوست تمہیں آج بھی ہر وقت یاد کرتے ہیں۔ بالخصوص پردیپ اور مجھے تو یوں لگتا ہے مانو تم آج بھی ہم دونوں کے ساتھ ہوتے ہو۔ ہر لمحہ ہرگھڑی…!‘‘
بات کرتے کرتے ایک اور خیال نے میرا تسلسل توڑ دیا۔ میں نے تعجب سے پپو کو دیکھا اور پوچھا…
’’مگر سب سے پہلے تم مجھے بتائو کہ اب تم یہاں کیسے؟ آج تو تم نے مجھے خود ہی پہچان لیا… مگر کیسے؟ یہ جگہ کونسی ہے؟ تم تو ہو ہی نہیں۔ پھر بھی میں تم سے باتیں کررہا ہوں۔ تمہیں دیکھ رہا ہوں۔ چُھو رہا ہوں۔ مگر کیسے؟ ہم دونوں اس انوکھی جگہ پر ایک ساتھ… یہ تو مجھے نہ زمین لگتی ہے نہ ہی آسمان۔ کیا میں پھر کوئی خواب دیکھ رہا ہوں؟؟؟‘‘‘
میں نے پپو پر مانو سوالات کی بارش کردی۔ وہ میری طرف دیکھ کر زور سے ہنسا اور میرے دونوں شانوں کو اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر بولا…’’دیکھو دوست ، سچ تو یہ ہے کہ اب تم بھی ہم لوگوں کی طرح جنت نشین ہوگئے ہو۔‘‘
’’یعنی ‘‘! میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
’’یعنی تم بھی ہم سب کی طرح اب فوت ہوچکے ہو۔‘‘
’’کیا!!!… میں مرچکا ہوں؟؟؟‘‘ میرا دل خوشی سے ناچ اُٹھا۔
’’ہاں بھئی ہاں… تم مرچکے ہو اور اس وقت میرے ساتھ جنت میںکھڑے ہو۔‘‘ پپو نے صاف گوئی سے کام لیا۔
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اب تمہارے ساتھ رہوں گا۔ چاچاجی سے ملوں گا۔ ہے نا۔‘‘ میں بچے کی مانند چہک اُٹھا۔
’’ہاں ہاں بالکل۔ مجھے چاچاجی نے ہی تو بھیجا ہے تمہیں اُن کے پاس لیجانے کے لئے ۔‘‘
’’کیا …!!! چاچاجی نے بھیجا ہے! تم جانتے ہو وہ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے مچل کر دریافت کیا۔
’’ہاں جانتا ہوں۔ وہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے تم چاہتے ہو۔ میں اُنہیں کے پاس ہی تو ہوتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے تم میری نمازِ جنازہ کے وقت بھی قبرستان میں نمازیوں کے سب سے پیچھے تنہا کھڑے تھے۔ تم نے میری میت پر نظریں ٹکا کر دل ہی دل میں مجھ سے مخاطب ہوکر کہا تھا …’’پپو میرے دوست! میرے چاچاجی کو میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا میں بہت جلد اُن کے پاس آرہا ہوں اور جب تک میں نہ آئوں، پپو تم چاچاجی کیساتھ رہنا۔ اُن کا خیال رکھنا۔ تم جانتے ہو وہ مجھے کس قدر چاہتے ہیں۔ میرے بغیر نجانے اُنکا کیا حال ہوگا۔ تمہاری صحبت میں کم از کم انہیں میری کمی کا احساس تو نہیں ہوگا۔ وہ تم میں مجھے دیکھیں گے۔ کچھ یاد آیا تمہیں…‘‘ پپو سوالیہ نظروں میری جانب تکتا ہوا بولا۔ میں نے اثبات میں سرہلایا۔ سچ مُچ مجھے سب کچھ یاد تھا۔ پپو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آگے بولا…‘‘بس میں اُسی دن سے دوستی کا یہ فرض ادا کر رہا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم جب کبھی شمشان گھاٹ پر یا قبرستان میں کسی کے آخری صفر میں شرکت کرتے ہو یا کہیں راستے یا سڑک پر آتے جاتے کوئی جنازہ دیکھتے ہو تو دل ہی دل میت سے یہی التجا کرتے ہو۔ کرتے ہو نا‘‘؟ پپو کی بات میں پھر سوال تھا۔وہ لمحہ بھر رُکا۔ اُدھر میں یہ سوچ سوچ کر حیران تھا کہ اس طور کی گئی گذارشیں بھی رنگ لاتی ہیں کیا؟
’’ہاں یار تم درست کہہ رہے ہو۔ میں سبھوں سے یہی فریاد کرتا ہوں‘‘… میں جواباً بولا۔
پپو نے لمبی سانس کھینچی اور پھر گویا ہوا… اور وہ سبھی لوگ یہاں آکر چاچا جی کو تمہارا حالِ زار بیان کرتے ہیں۔ مگر تم زمین والے یہ بات نہیں جانتے۔ تمہیں علم ہی نہیں کہ زمین پر کہا سُنا، کیا یہاں بھی سائے کی طرح ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے تمہارا کالج میں دوسرا سال تھا۔ برسات کے موسم میں ماہِ رمضان کی آمد ہوئی۔ عین وسط میں گلوکار محمد رفیع صاحب رحلت فرما گئے۔ تم نے کہیں اخبار میں پڑھا تھا کہ وہ پکے روزہ دار تھے۔ ہرسال پابندی کیساتھ مہینہ بھر یہ مقدس فریضہ ادا کرتے تھے۔ تم اُن کی آواز کے اس قدر دیوانے تھے کہ تمہیں اُن کی وفات پر اس بات کا بھی شدید رنج ہوا کہ وہ اس سال پورے روزے نہیں رکھ سکے۔ لہٰذا تم نے اُن کے نام پر اُن کو نذر کرتے ہوئے بقیہ روزے رکھے تھے۔ تاکہ اُن روزوں کا ثواب رفیع صاحب کو ملے۔ تم نے ہندو ہوکر بھی سخت پابندی و پرہیزگاری سے اس عمل کو انجام دیا تھا۔ پھر کئی برس تک تم اس عمل کو دہراتے رہے۔ میں تمہارے اس نرالے عمل کا بھی چشم دید گواہ رہا ہوں…‘‘
گو پپو کی کہی ایک ایک بات مجھے اچھی طرح یاد تھی، پھر بھی اُس کے منہ سے اس شاندار جگہ پر ان یادوں کو سُننا مجھے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ میں چُپ چاپ پپو کی جانب اپنے کان لگائے ہوئے تھا…
’’رفیع صاحب کے لئے تمہارے جنون کی نسبت چاچاجی کو بھی علم تھا۔ اب تمہاری چاہت اُن کی چاہت ہوگئی تھی۔ کالج کے بعد تم ایل ایل بی کرنے لکھنو چلے گئے۔ چاچاجی کے لئے تمہارے بغیر تین سال کا یہ طویل عرصہ قیامت سے کم نہیں تھا۔ مگر رفیع صاحب کی آواز کے سہارے انہوں نے اس قیامت پر بھی فتح حاصل کرلی کیونکہ یہ آواز تم سے منسلک ہوچکی تھی۔ اُن تین برسوں میںانہوں نے ایک پل بھی خود سے ریڈیو کو الگ نہیں کیا۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ پپو تمہاری صورت اور فیع صاحب کی آواز میں میرا دوست ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے۔ انہوں نے تازندگی تمہیں اپنا دوست ہی کہا بیٹا نہیں۔ البتہ یہ باتیں کہتے وقت اُن کی آنکھیں نم ہوجایا کرتی تھیں…!‘‘ پپو نے ایک گہری سانس لی اور پھر گویا ہوا… ’’رفیع صاحب کے تئیں تمہاری بے لوث محبت و عقیدت کے شکرانے و ثواب میں رفیع صاحب اب جنت میںاکثر چاچاجی کے پاس آتے ہیں اور اپنی سدا بہار آواز کا ساون ہم سب پر جی بھر کے برساتے ہیں‘‘۔
پپو ساعت بھر رُک کر کچھ سوچتا ہوا پھر بولا…’’کچھ اور سنو گے؟‘‘
میں ہاں ناں کچھ نہ کہہ سکا۔ مجھے پہلے ہی جذبات کی طغیانی نے دم بخود کر ڈالا تھا۔ البتہ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوا… ’’جب چاچاجی کا آخری وقت آن پہنچا تھا،تب اُنہیں پلنگ سے اُتار کر اُسی کمرے کے مشرقی کنارے پر جس جگہ فرش پر لٹایا گیا تھا اور چند لمحوں بعد اُسی جگہ پر انہوں نے اپنی آخری سانس لی تھی، تم نے اُسی جگہ پر خود کو ڈال دیا اور وہیں پر ڈیرہ جمالیا۔ تم نے اُسی جگہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ تم نے عہد کرلیا کہ اب تم اسی جگہ پر جیو گئے اور مرو گے۔ وہاں تمہیںہر وقت چاچا جی کی موجودگی کا احساس ہوتا۔ اُنکی سانسیں اُنکا لمس محسوس ہوتا۔ تم یہاں پر پڑے پڑے اُن کے خیالوں سے محو گفتگو رہتے۔ تمہیں لگتاکہ یہیں سے اُنکی جانب وہ راستہ جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ تمہاری ساری کائینات اس دو گز زمین کے دائرے میں سمٹ کر رہ گئی۔ دریں اثناء اسی جگہ کے سرہانے کی دیوار پر تیروہیں کے بعد تم نے چاچا جی کی ایک بڑی سی تصویر بغیر ہار کے آویزان کر دی۔ تصویر پر ہار نہ لگانے کی ضد تمہاری تھی کیونکہ تمہارے لئے تو چاچا جی باحیات تھے۔ اسی اثنا تمہاری نظر میں آیا کہ تصویر میں چاچا جی تنہا ہیں۔ تم نے اُن کا اکیلاپن مٹانے کی خاطر اُن کی تصویر کے نچلے بائیں کونے میں اپنی ایک پاسپورٹ سائز فوٹو ٹکا دی اور داہنی جانب بیٹے کی۔ اس پر بھابھی جی بپھر پڑیں… ’’مُردوں کی تصویر کیساتھ زندوں کی تصویر نہیں لگتی، زندوں کی عمر گھٹتی ہے‘‘۔ بھابھی نے دیو کی فوٹو ہٹالی۔ جوں جوں دن بیتنے لگے توں توں تمہاری فوٹو کا رنگ پھیکا پڑنے لگا۔ اور آج تمہاری فوٹو کے آخری رنگ کے ساتھ تمہاری زندگی کی کہانی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ تمہاری دن رات کی عبادت رنگ لائی۔ تمہاری دُعائیں قبول ہوئیں۔ تمہیں دُھندلی سیڑھیاں ہی نہیں بلکہ غیبی دُنیا بھی مل گئی۔ دیکھو اس وقت تم میرے ساتھ یہاں جنت میں کھڑے ہو۔ اب تمہیں یہاں چاچاجی کے ساتھ ہی رہناہے‘‘۔
پپو کے آخری الفاظ سنکر میں خوشی سے پھول گیا۔ مگر میرے ذہن میں بے یقینی کی برف اب بھی جمی ہوئی تھی…’’یار یقین نہیں ہورہا۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا،
’’تمہیں یقین نہیں ہورہا…چلو میرے ساتھ…میں تمہیںیقین دلاتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر پپو نے میری کلائی پکڑی اور مجھے پُربہار بازار سے باہر بائیں سمت دُھندلکے کی جانب لیجانے لگا۔ مخملی گھاس پر تقریباً ڈیڑھ دو سو گز چلنے کے بعد ہم دونوںایک سنسان و اندھیرے ٹیلے پر جاکر کھڑے ہوگئے۔ پپو نے میری کلائی پر اپنی انگلیوں کا کسائو بڑھا دیا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے ٹیلے کے عقب میں نیچے کی طرف اشارہ کرکے بولا… ’’وہ دیکھو، نیچے زمین پر…‘‘
میں نے بھی اُس سمت نگاہ ڈالی… میں بھونچکا رہ گیا…نیچے کا منظر حیرت انگیز تھا…میری آنکھوں کے سامنے اپنے شہر کے درمیان بہتی ہوئی متبرک ندیوں دیویکا اور دودھ گنگاکے سنگم کنارے شمشان گھاٹ تھا، جہاں میں کفن میں لپٹا لکڑیوں کی چِتا پر لیٹا ہوا تھا۔ میرے گھر، محلے و شہر کے لوگ سوگوار حالت میں چِتا کے ارد گرد کھڑے تھے۔ پنڈت جیوتی پرکاش میرے جواں عُمر بیٹے دیو کے ہاتھوں میری آخری رسومات ادا کروا رہے تھے۔ غم کی شدت سے بے حال دیو پر جب میری نظر پڑی تو میرا دل پاش پاش ہوگیا۔ دیو کی آہ و زاری میرے لئے ناقابل برداشت تھی۔ مجھے دیو میں اپنا آپ اور چِتا پر لیٹے چاچاجی نظر آنے لگے۔ کیونکہ اُنکی چِتا بھی اسی جگہ پر جلی تھی۔ میری آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ میں خود کو ایک پُرخا ر دوراہے پر کھڑا محسوس کرنے لگا۔ ایک طرف چاچاجی سے ملنے کی بیقرارحسرت تھی تو دوسری جانب بیٹے سے بچھڑنے کا اذیت ناک غم۔ میں جنت میں بھی خود کو جہنم کی آگ میں جلتا ہوا محسوس کرنے لگا۔ میں جنت کے کھلے آسمان کی طرف دیکھ کر بے بس آہ بھرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکا۔ میرے چہرے کو کفن سے ڈھانپ کر لوگوں نے مجھے چاروں طرف سے لکڑیوں کے انبار میں چُن دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے چِتا کو دیو کے ہاتھوں نذر آتش کروادیا۔ میں خاموش تماشائی بنا ایک نظر اپنی چِتا کو جلتے ہوئے دیکھنے لگا اور دوسری نظر آنسو بہاتے دیو کو۔
مجھے اس منظر کی کربناک کشمکش نے کب تک خودفراموشی کے سمندر میں غوطہ زن رکھا مجھے خود بھی احساس نہیں ہوا۔ تبھی پپو نے میرا کندھا چھو کر مجھے چونکا دیا۔ میں نے ایک نگاہ پھر نیچے ڈالی۔ اب شمشان گھاٹ پر سناٹے کی حکومت تھی۔ جنازے میں شامل لوگ گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ اُدھر میری چِتا اور میں دونوں راکھ کا ڈھیر بن چکے تھے۔ تاہم راکھ میں دبے انگارے اب بھی تڑک تڑک کر ہوا میں چنگاریاں اُچھال رہے تھے۔ پپو نے مجھے اپنے سینے سے لگاکر میری پیٹھ پر دلاسے کی تھپکی دی اور آہستگی سے بولا…’’ آئو چلیں، چاچا جی تمہارا انتظار کررہے ہونگے‘‘۔
میں بوجھل قدموں پپو کے ساتھ اندھیرے ٹیلے سے نیچے اُترنے لگا، تبھی ہوا کے ایک سحرانگیز جھونکے نے مجھے رنج و الم کی اذیت سے ساعت بھر میں نجات دلادی۔ اب میں مکمل طور پر خود کو ہلکا محسوس کرنے لگا۔ پپو حسب عادت میرا ہاتھ پکڑے مجھے جنت کے پُرنور بازار سے گذرتی چاندی کی کشادہ سڑک پر جنت نشین چاچاجی کے پاس لے جارہا تھا۔
رابطہ؛1/226سُبھاش نگر، ادھمپور، جموں وکشمیر۔182101