وہ لوگ جو آج بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت میں عوام کے خوابوں کو تعبیر مل سکتی ہے‘ ان کی زندگی سنور سکتی ہے‘ وہ خوشحال ہو سکتے ہیں‘ انہیں دنیا کی سب سے کامیاب جمہوریت‘ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے 2014ء میں ہونے والے مڈٹرم الیکشن میں خرچ ہونے والے سرمائے اور سرمایہ فراہم کرنے والے افراد کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیے۔یہ امریکی تاریخ کے سب سے مہنگے الیکشن تھے جن پر چار ارب ڈالر لاگت آئی۔ سیاست دانوں کو خریدنے اور ان کے الیکشن پر سرمایہ لگانے کی دوڑ تو پہلے ہی سے تھی لیکن 2010ء میں امریکی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ کوئی بھی سرمایہ دار کسی بھی سیاسی پارٹی یا امیدوار کے الیکشن میں پیسہ دے سکتا ہے اور وہ اُسے خفیہ بھی رکھ سکتا ہے اور حکومت کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ پارٹیوں کے فنڈز اور اخراجات کے معاملے میں کسی بھی قسم کی کوئی تحقیق کرنے کی مجاز ہو۔یہ فیصلہ امریکی تنظیم Citizen United کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست پر کیا گیا جسے ڈیوڈ بوسی (David Bossie) نے داخل کیا تھا۔ فیصلے کے بعد ہونے والے الیکشن سرمائے کی بہتات اور اراکین کانگریس کی خرید و فروخت کا بازار بن گئے۔ دنیا کے دس بڑے امیر آدمیوں میں سے دو بھائی Charls (چارلس) اور David (ڈیوڈ) ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو کوچ (Koch) برادران کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے فنڈ میں 30 ؍کروڑ ڈالر دیے اور اپنی پارٹی کے الیکشن کی مہم میں میڈیا کو 44 ؍ہزار اشتہارات دیے۔میڈیا اور سرمائے کے اس گٹھ جوڑ نے سینیٹ پر ریپبلکن پارٹی کا اقتدار مستحکم کر دیا۔ یہ دونوں بھائی تیل کی صنعت سے وابستہ ہیں اور ان کا سب سے بڑا مفاد اس وقت کینیڈا اور امریکا کے درمیان تیل کی ترسیل کی وہ پائپ لائن ہے جسے AL پائپ لائن کہتے ہیں۔ اس پائپ لائن پر بہت سے ماحولیاتی اعتراضات ہوئے اور بارک اوبامہ نے جنوری 2012ء میں اس پائپ لائن کے پراجیکٹ کو ملتوی کر دیا تھا۔
کانگریس میں ریپبلکن کی اکثریت کے بعد جمہوری طور پر وہ تمام اعتراضات دم توڑ گئے اور یہ پائپ لائن بننے سے دونوں بھائیوں کی آمدنی میں تیس ارب ڈالر کا اضافہ ہو گا۔ کیسا سستا سودا ہے یہ جمہوریت اور جمہوری نظام؟?30 ؍کروڑ ڈالر خرچ کرو‘ شاندار میڈیا کے ذریعے پراپیگنڈہ کرو‘ لوگوں کو صرف چند گھنٹوں کے لیے بے وقوف بنائو کہ تم ہی اصل حاکم ہو اور تیس ارب ڈالر کمائو یعنی 30 ؍گنا زیادہ منافع۔اسی جمہوریت اور جمہوری نظام کا ایک اور مکروہ چہرہ امریکی عوام سے کیا گیا ایک عوامی سروے ہے۔ یہ سروے ثابت کرتا تھا کہ کس طرح آپ لوگوں کے ذہنوں کو یرغمال بنا کر اکثریت کو قائل کرسکتے ہو کہ ظلم اور بربریت جائز ہے یعنی اکثریت اگر معصوم لوگوں کو قتل کرنا جائز قرار دے تو پھر چونکہ یہ ایک جمہوری فیصلہ ہے‘ اس لیے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ یہ سروے Gallup Daily Tracking نے کیا تھا۔اس کے مطابق %65 ؍امریکی عوام نے کہا تھا کہ امریکا ان ملکوں پر ڈرون حملے کرے جہاں مشتبہ دہشت گرد موجود ہیں جب کہ 41 ؍فیصد نے کہا تھاکہ وہ ملک جہاں ایسے دہشت گرد بستے ہوں، جو امریکی شہری ہیں تو ان پر بھی ڈرؤن گرائے جائیں۔ امریکا میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرؤن حملوں کے حق میں 25 ؍فیصد لوگ تھے جب کہ 13 ؍فیصد یہاں تک حامی تھے کہ اگر کوئی مشتبہ دہشت گرد امریکی ہے اور امریکا میں ہی رہتا ہے تو اس پر بھی ڈرؤن سے حملہ کیا جائے۔ یہ ہے وہ نفسیات جو امریکی عوام کی بنا دی گئی ہے۔ یہ نفسیات کس نے بنائی ہے۔
یہ سروے پارٹیوں کے لیڈران کے بارے میں بتاتا تھا کہ ریپبلکن کے 79 ؍ فیصد ممبران ڈرون حملوں کے حق میں ہیں جب کہ ڈیمو کریٹس کے 55 ؍فیصد ممبران کسی بھی ملک میں کسی بھی دہشت گرد کے خلاف ڈرؤن حملوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ حمایت کیسے پیدا ہوئی؟ یہ اجتماعی سوچ کس طرح پیدا کی گئی کہ کسی کو اس بات کا اندازہ تک نہیں کہ ان حملوں میں نوے فیصد سے زیادہ معصوم عورتیں‘ مرد اور بچے لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ ایف بی آئی (FBI) کے اسپیشل ایجنٹ کولن رائولی (Coleen Rowley) نے موجودہ امریکی جمہوری نظام کی اس شدت پسندی کا ایک شاندار نفسیاتی تجزیہ کیا تھا۔
اس کا مضمون اس عنوان سے تھا کہ ’’امریکی سر قلم کرنے سے نفرت کرتے ہیں جب کہ ڈرؤن حملوں سے محبت کیوں؟‘‘۔ مضمو نگار حیران تھے کہ فوجی ماہرین یہ تصور کرتے ہیں کہ ڈرون حملوں سے شدت پسندی میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ سیاسی لیڈران اور جمہوریت کے نظام کی اساس‘ اس کا میڈیا عوام کو قائل کر چکا تھا کہ ڈرؤن حملے دنیا میں امن قائم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ وہ اس کی چار وجوہات بیان کرتے۔ پہلی یہ کہ اس جمہوری سیاست نے امریکی عوام کو یہ سکھایا ہے کہ تم اس قدر برتر اور اعلیٰ ہو کہ تم ایک جانب اور پوری انسانیت دوسری جانب۔ تمہارا ایک آدمی بھی مارا جائے تو دوسروں کے ایک لاکھ بھی مارکر انتقام لیا جا سکتا ہے۔ یہ دنیا کی بدترین نسل پرستی ہے۔دوسری وجہ یہ کہ سر قلم کرنے کی ویڈیو امریکی میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچائی جاتی اور عوام کو ایک خوف کا شکار کیا جاتا جب کہ آج تک کسی ڈرؤن حملے میں مرنے والے بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے جسم دنیا اور خصوصاً امریکا کے کسی بھی میڈیا پر نہیں دکھائے گئے۔ اگر یہ ایک دفعہ دکھا دیے جائیں تو امریکی عوام ایک نفسیاتی شرمندگی کا شکار ہو سکتے تھے۔ اس لیے کہ جن لوگوں نے عملی طور پر ڈرؤن کو کنٹرول کیا، ان میں سے کئی خود کشی کی کوشش کر چکے ہیں یا پھر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔تیسری وجہ وہ یہ بتاتا کہ ڈرؤن حملوں کی حمایت امریکا کی امن کمیٹی ’’Peace Committee‘‘ کرتی ہے۔ اس کے ارکان ایک مقصد کے تحت برین واش کیے ہوئے تھے‘ ان کا علم واجبی اور محدود تھا اور انہیں یہ اندازہ تک نہیں کہ امریکا کی طرف سے لڑی جانے والی جنگوں کے نتیجے میں القاعدہ‘ طالبان اور داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آئی ہیں‘ جو ان جنگوں میں ہونے والے معصوم شہریوں کے قتل عام کا ردعمل ہیں۔ چوتھی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ امریکا خواہ ویت نام میں جائے یا عراق اور افغانستان میں‘ اس کے اسلحہ ساز فیکٹریوں کا کاروبار چمکنے لگتا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں پر قابض ہو کر وہاں کے وسائل کو استعمال کرنے کے لیے کمپنیاں وہاں جاتی ہیں۔اس سے امریکی معیشت میں بہتری آتی ہے‘ لوگوں کو نئی نوکریاں ملتی ہیں۔ عام امریکی کو علم تک نہیں ہوتا کہ خود امریکا کس قدر مقروض ہوا تھا۔ اسے تو روز بروز بڑھتی ہوئی تنخواہ اور نئی نئی نوکریوں سے غرض ہوتی ۔ سرمایہ دار دن دوگنی اور رات چوگنی دولت بناتے ہیں اور پھر اس دولت کو پارٹیوں کو فنڈ دینے میں لگا کر پوری جمہوری سیاست کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ دنیا کی سب سے کامیاب جمہوریت یوں چند سرمایہ داروں کے اشارے پر ناچتی اور انسانی لاشوں سے کاروبار سیاست و معیشت چمکاتی ہے۔اسی جمہوری نظام کا تسلسل دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک میں بھی نظر آتا ہے۔ اس تسلسل نے وہاں امبانی، متل‘ ٹاٹا اور برلا تو پیدا کیے لیکن عام آدمی کو بیت الخلا جیسی ضرورت مہیا نہ کر سکی۔ نریندر مودی کے الیکشن کارپوریٹ سرمائے کا کھلا اظہار تھا۔ اس سرمائے کے شکنجے میں ویسے ہی نعرے پلتے ہیں: ’’ایک بھارتی مرے تو ہزار مخالف مارو‘ ‘سبق سکھائو۔ کیا کسی کو جمہوری سیاست میں سرمائے کی بہتات سے آنے والے چہرےنظر نہیں آ رہے؟ ایک بدترین متعصب‘ خونریز اور خون چوسنے والا کریہہ الصورت چہرے! بقول اقبال ؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر