چند گھنٹوں کے دھواں دار ڈرامے کے بعدریاست کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کئے جانے پر سیاسی صف بندیوں کے آر پار جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ ا س امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ جموںوکشمیر، جہاں وقت وقت پر جمہوری اقدار کے چلن کا ڈھنڈورا پیٹنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا ، میں جمہوری اقدار اور اصولوںکا نفاذ نئی دہلی کی من مرضی اور مفادات کے تابع ہے اور 1953سے، جب مرحوم شیخ محمد عبداللہ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کر کے زینت زندان بنایا گیا تھا، سے آج تک اس مزاج اور منہاج میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیںہوئی ہے۔وگرنہ پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس کی جانب سے حکومت سازی کے دعوے پیش کئے جانے کے چند لمحوں کے اندر اندر اسمبلی تحلیل نہ کی جاتی۔ مرکز میں برسر اقتداربھاجپاکو چھوڑ کو کم و بیش سبھی جماعتوں نے اس اقدام کو جمہوریت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔ بھلے ہی گورنر صاحب کی جانب سے یہ دلیل پیش کی جائے کہ انہیں مختلف عناصر کی جانب سے حکومت سازی کےلئے جوڑ توڑ کی اطلاعات ملی تھیں لہٰذا جمہوریت کے تحفظ کے لئے ایسی کوششوں کو ناکام بنانا ضروری تھا،لیکن یہ دلیل ایک عام شہری کو قائل نہیں کرسکتی، کیونکہ سیاسی جوڑتوڑ ہمیشہ سیاست ایک جزو لاینفک رہاہے اور اسکی مثالیںآج ملک بھر میں مختلف ریاستوں کے اندر دیکھی جاسکتی ہیں اور اس امر سے سبھی باخبر ہیںکہ اس میں مرکز کے اندر برسراقتدار اتحاد کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ سنجیدہ فکر شہریوں، جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھتے ہیں، کےلئے یہ سمجھنا انتہائی دشوار ہے کہ گورنر ہائوس میں ایک گروپ کی جانب سے پیش کئے گئے حکومت بنانے کے دعوے کو کیسے وصول کیا گیا جبکہ دوسرے فریق کا دعویٰ پیش کئے جانے کے وقت سارا مواصلاتی نظام بریک ڈائون ہو گیا تھا۔ نیزبھاجپا کی جانب سے حکومت سازی کی کوششوں کی خبریں کئی ماہ سے گشت کر رہی تھیں مگر اس دوران ایسی کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ اب جبکہ مین اسٹریم خیمے کی تین اہم جماعتوں کے درمیان اتحاد و اشتراک کی کوششیں سامنے آنے لگی تھیں تو اسے کیسے جمہوریت کے لئے نقصان دہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس ڈرامے نے اس وقت کئی شخصیتوں کے کھوکھلے پن کوبھی کھول کر سامنے لایا ہے، جب نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس پر حکومت سازی کےلئے پاکستان کے آشیرواد کی ایسی بے وزن دلیل پیش کی گئی، جس سے دامن جھاڑتے جھاڑتےالزام تراشیاں کرنے والےاب ہکلانے لگے ہیں۔ اقتداری سیاست کی اس جنگ نے کئی ایسے سیاستدانوں کو بھی بے وزن ثابت کر دیا ہے، جنہوں نے اس ممکنہ یا متوقع اتحاد کو جموں و لداخ کےخلاف کشمیر کو برسراقتدار لانے کے تنگ نظریہ کے طور پرپیش کرنے کی کوشش کی۔ مختصر اً یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی حلقوں یا سیاسی جماعتوں کےلئے اس سارے منظر نامے میں اپنے اپنے مفادات کے گل بوٹے کھلانے کے امکانات ہوسکتے ہیں مگر عوامی سطح پر رائے دہندگان کے نزدیک یہ سارا عمل جمہوریت کے اپس پیڑ کی جڑیں تراشنے کے مترادف ہے، جسکے سائے کو عالم انسانیت کی بقاء و حفاظت کے ضامن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو عوامی جمہوری اصولوں سے کھلواڑ نے ہمیشہ جموںو کشمیر کی فضاء کو مکدر کرکے چھوڑنے میں دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ وگرنہ نیشنل کانفرنس کو 22برس تک محاذ رائے شماری کی راہ اختیار کرنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد اذاں 1975میں کشمیر ایکارڈ کے ذریعہ اُس باب کو بند کر دیا گیا ۔ الغرض اتنا کہنا غالباً درست ہوگا کہ کشمیر کو ہمیشہ ملکی سیاست کےلئے ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور یہ عمل اس وقت بھی جاری ہے کیونکہ اگر جموںوکشمیر میں ایک اتحاد ی حکومت سامنے آتی تو لازمی طور پر آئندہ پارلیمانی انتخابات پر اسکے اثرات ضرور ثبت ہوتے، جس کے امکانات کو ختم کرنے کےلئے مرکزی حکومت ریاست کےا ندر گورنر راج کو طول دینے پر آمادہ تھی اور اسمبلی کو تحلیل کرکے وہ مقصد برآمد کیا گیا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں سامنے آیا جب کشمیر کے اندر علیحدگی پسند خیمہ کی سیاست کا توڑ کرنے کےلئے دنیا بھر کے ایوانوں میں جموںوکشمیر کے اندر جمہوریت اور جمہوری اداروں کی موجودگی کو بطور دلیل بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے چند روز قبل ہوئے بلدیاتی انتخابات اور رواں پنچایتی انتخابات کو ریاست کے اندر جمہوریت کے بول بالا کے طور پر پیش کرکے مخالفین کی دلیلوں کو توڑنے کےلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا۔ ایسے حالات میں عوام کی طرف سے منتخب کی گئی اسمبلی کو تحلیل کئے جانے کے اقدام کو کس عنوان سے پیش کیا جائے گا اور اسکے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں وہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ سیاسی وپارٹی مفادات کےلئے بنیادی جمہوری ڈھانچے کو کمزور کرنے کا عمل جمہوریت کی بنیادیں اُکھاڑنےسےکچھ کم نہیں۔