بند کال کی وجہ سے اگرچہ جموں میں معمول کی سرگرمیاں متاثر رہیں تاہم مقامی تجارتی انجمنوں اور خطہ پیر پنچال و خطہ چناب کی بار تنظیموں کی طرف سے خود کو اس ہڑتال سے علیحدہ کردینا قابل ستائش اقدام ہے جس سے بظاہر ایسی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے جو جموں کو فرقہ وارانہ رنگت میں رنگ کر اپنے مفاد خصوصی کی تکمیل چاہتی ہیں ۔آصفہ قتل کیس کی تحقیقات سی بی آئی سے کرانے ، جموں کے ساتھ امتیاز ختم کرنے اور روہنگیامسلمانوں کی جموں بدری و دیگر مطالبات پر جموں بند کال بار ایسو سی ایشن کی طرف سے دی گئی تھی تاہم اس کی کچھ ظاہری اور کچھ ایسی باطنی قوتوں نے بھی حمایت کی جو جموں میں بھائی چارے کو ہر گز فروغ پاتے نہیں دیکھناچاہتی ہیں۔بند کال کا کتنا اثر رہا اس پر بحث کرنا مقصود نہیں لیکن جس طرح سے تجارتی انجمنوں نے کال کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا اُسے وسیع القلب عوامی حلقوں کی طرف سے سراہا جارہا ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو بغیر کسی منطق کے ہڑتال پر یقین نہیں رکھتا۔چونکہ امن و بھائی چارے کے لحاظ سے جموں ایک حساس علاقہ سمجھاجاتا رہا ہے اوراگر تفریق پسند عناصر اورباطنی طاقتوں کو بظاہر حمایت ملنی شروع ہوجائے گی تو وہ کوئی بھی اقدام کر گزرنے سے خوف محسوس نہیں کریںگے اور نہ ہی انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خوف بھی رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شرپسند انہ عزائم کی اسی طرح سے حوصلہ شکنی کی جائے اور ایسی کوششوں کو ناکام بنادیاجائے جو سماج میں تفریق پید اکرنے کی غرض سے شروع کی گئی ہیں نہیں تو آنے والے وقت میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور ایسی صورتحال کی لپیٹ میں صرف خطہ جموں ہی نہیں بلکہ پوری ریاست آسکتی ہے ۔یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ جموں میں جب جب شرپسندانہ عزائم نے اپنادائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی تو سماج کے باشعور طبقہ اسکے راستے میں کھڑا ہوگیا اوریہی وجہ ہے کہ آج بھی جموںمیں بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار ہے، نہیں تو امن دشمن عناصر نے اس بھائی چارے کو زک پہنچانے کی کوئی بھی کوشش باقی نہیں رکھی ۔ جہاں آئندہ بھی جموں کے باشعور طبقہ پر یہی فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہیں حکومت پر بھی یہ لازم بنتاہے کہ حالات خراب کرنے والوں کی سنجیدگی کے ساتھ سرکوبی کی جائے تاکہ امن و بھائی چارے کی فضا بحال رہ سکے ۔سماجی تفریق کے مقصد سے انسانی نوعیت کے معاملات پر ہڑتالیں اور بند سے ایک خطرناک روایت قائم ہوگی اس لئے ضروری ہے کہ بار ایسو سی ایشن بھی ذمہ دارانہ رول اد اکرے اور ایسے مدعوں پر شرپسند عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے جن کے دور درس نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہو ۔ خاص طور پر جموں میں ایسے حالات پید انہ کئے جائیں جس سے یہاں کی مسلم اقلیت اپنے آپ کو الگ تھلگ سمجھنے لگے جس کاخدشہ گزشتہ روز بھاجپا نے بھی ظاہرکیاہے ۔ جموں اور پوری ریاست کا بھلا اسی میں ہے کہ ہندو،مسلم ، سکھ عیسائی بھائی بھائی بن کر زندگی بسر کریں اور اپنے خلاف ہونے والی ہر قسم کی سازشوں کاقلع قمع کریں۔