سرینگر//عدالت عظمیٰ نے پیر کے روز اپنے ایک فیصلے میں مرکزی وزارت داخلہ کے سیکریٹری کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل کی ہدایت دی تاکہ وہ جموں کشمیر میں 4جی انٹر نیٹ سروس کی بحالی سے متعلق عرضداشتوں پر غور کرے۔
جسٹس این وی رمن، جسٹس آر سبھاش ریڈی اور جسٹس بی آر گوئی کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ کمیٹی میں جموں کشمیر کے چیف سیکریٹری کو بھی شامل کیا جانا چاہئے جو عرضی گذاروں کے4جی انٹرنیٹ سروس بحالی سے متعلق مطالبے پر غور کرے۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کمیٹی کو چاہئے کہ وہ ”قومی حفاظت“ اور ”انسانی حقوق“ کے مابین توازن کو یقینی بنائے۔
قابل ذکر ہے کہ بنچ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے منسلک تمام فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد 4 مئی کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ درخواست گزاروں کی جانب سے پیش وکیل حذیقہ احمدی نے دلیل دی تھی کہ موجودہ 2 جی سروس کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی، اور تاجروں کوکاروبار میں دقت آ رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں، کورونا وائرس کے درمیان لوگ ڈاکٹروں سے ضروری مشورہ ے تک نہیں لے پا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے پیش اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے دلیل دی تھی کہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی رفتار کو کنٹرول کرنا داخلی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔حکومت کی جانب سے پیش اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے دلیل دی تھی کہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی رفتار کو کنٹرول کرنا داخلی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ڈاکٹروں تک پہنچنے کا حق، جینے کے حق کے تحت آتا ہے۔ کوروناکے دور میں لوگوں کو ڈاکٹروں سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے مشورہ لینے سے روکنا آئین کے آرٹیکل 19 اور 21 کے تحت تفویض بنیادی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت کی جانب سے پیش اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے دلیل دی تھی کہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی رفتار کو کنٹرول کرنا داخلی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا تھا کہ قومی سلامتی سب سے اوپر ہے اور یہ فیصلہ حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ملک کی سالمیت سے منسلک ایسے ایشوز پر عوامی طور پر یا کورٹ میں بحث نہیں کی جا سکتی۔ عدالت کو اس مسئلے میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ اس معاملہ میں درخواست گزار جموں کشمیر پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کی جانب سے سینئر وکیل سلمان خورشید بھی پیش ہوئے تھے۔ تمام فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا ۔