بلال فرقانی
سرینگر // آل انڈیاکانگریس کے سب سے قد آور لیڈر غلام نبی آزاد نے قریب 50سال بعد پارٹی سے ناطہ توڑ کر تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔پارٹی کی عبوری صدر سونیا گاندھی کے نام 5صفحات کے ایک خط میں، آزاد نے کہا ہے کہ ایک جماعت پارٹی کو چلاتی ہے جب کہ وہ محض ایک برائے نام سربراہ ہیں اور تمام بڑے فیصلے راہول گاندھی یا اس سے بھی بدتر ان کے سیکورٹی گارڈز اور پرسنل اسسٹنٹ نے لیے ہیں‘‘۔یہ پیشرفت آزاد کے جموں و کشمیر کے تنظیمی عہدے سے استعفیٰ دینے کے چند دن بعد ہوئی ہے۔کانگریس کے ساتھ اپنی طویل وابستگی اور اندرا گاندھی کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے، آزاد نے کہا کہ کانگریس پارٹی کی صورت حال’ واپس نہیں آنا ‘کے مقام پر پہنچ گئی ہے ۔ آزاد نے لکھا”سارا تنظیمی انتخابی عمل ایک دھوکہ ہے، ملک میں کہیں بھی تنظیم کے کسی بھی سطح پر انتخابات نہیں ہوئے ہیں،اے آئی سی سی کے ہاتھ سے چنے ہوئے لیفٹیننٹ کو 24اکبر روڈ پر بیٹھ کر اے آئی سی سی چلانے والے کوٹری کی طرف سے تیار کردہ فہرستوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا ہے،‘‘ ۔راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے آزاد نے لکھا، ”2019 کے انتخابات کے بعد سے پارٹی کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ نے عبوری صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔
ایک ایسا عہدہ جس پر آپ گزشتہ تین سالوں سے آج بھی برقرار ہیں۔‘‘آزاد نے کہا کہ یہ اس سے بھی بدتر ہے کہ ‘ریموٹ کنٹرول ماڈل’ جس نے یو پی اے حکومت کی ادارہ جاتی سالمیت کو تباہ کر دیا تھا اب انڈین نیشنل کانگریس پر لاگو ہو گیا ہے۔انہوں نے راہول گاندھی پر حملہ جاری رکھا لیکن سونیا گاندھی کی یو پی اے کی دونوں حکومتوں میں کانگریس صدر کے طور پر “اسٹرلنگ” کردار ادا کرنے کی تعریف کی۔اس کا استعفیٰ 2024 کے انتخابات سے پہلے آیا ہے اور اس بات کے اشارے کے بعد کہ کانگریس سربراہ کے عہدے کے انتخابات دوبارہ ملتوی کیے جائیں گے۔ کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا اعلان کیا ہے۔اپنے خط میں آزاد نے کہا کہ “بلاشبہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کے طور پر آپ نے UPA-1 اور UPA-2 دونوں حکومتوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بحیثیت صدر آپ نے سینئر لیڈروں کی دانشمندانہ صلاحتیں مانیں، ان کے فیصلے پر بھروسہ کیا اور اختیارات ان کو سونپے۔ تاہم بدقسمتی سے راہول گاندھی کے سیاست میں داخل ہونے کے بعد اور خاص طور پر جنوری 2013 کے بعد جب انہیں آپ نے نائب صدر کے طور پر مقرر کیا تھا، اس سے پہلے موجود تمام مشاورتی میکانزم کو ان کے ذریعے منہدم کر دیا گیا تھا۔آزاد نے مزید الزام لگایا کہ راہل گاندھی نے تمام سینئر اور تجربہ کار لیڈروں کو نظر انداز کر دیا۔”تمام سینئر اور تجربہ کار لیڈروں کو کنارہ کش کر دیا گیا اور ناتجربہ کار بدمعاشوں کی نئی جماعت پارٹی کے معاملات چلانے لگی۔
اس ناپختگی کی سب سے واضح مثالوں میں سے ایک راہل گاندھی کی طرف سے میڈیا کی پوری چکاچوند میں ایک سرکاری آرڈیننس کو پھاڑنا تھا۔ مذکورہ آرڈیننس کو کانگریس کے کور گروپ میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم کی زیر صدارت مرکزی کابینہ نے متفقہ طور پر منظوری دی تھی اور یہاں تک کہ ہندوستان کے صدر نے بھی اس کی منظوری دی تھی۔ اس ‘بچکانہ’ رویے نے وزیر اعظم اور حکومت ہند کے اختیار کو مکمل طور پر سلب کر دیا۔ کسی بھی چیز سے بڑھ کر اس ایک واحد اقدام نے 2014 میں یو پی اے حکومت کی شکست میں اہم کردار ادا کیا جو دائیں بازو کی قوتوں اور بعض باایمان کارپوریٹ مفادات کے امتزاج سے بدتمیزی اور الزام تراشی کی مہم کے اختتام پر تھی۔غلام نبی آزاد ان 23 رہنماؤں کے گروپ میں سے ایک ہیں، جو کانگریس میں قیادت کی تبدیلی اور کانگریس پارٹی کے ہر بڑے فیصلے کے لیے گاندھی خاندان پر انحصار نہ کرنے کے بارے میں آواز اٹھا رہے تھے۔اس سے قبل بدھ کے روز، وکیل سے سیاست دان بنے جیویر شیرگل نے کانگریس کے ترجمان کے طور پر استعفیٰ دے دیا تھا۔
آزاد کا کانگریس سفر
غلام نبی آزاد کانگریس پارٹی کیساتھ 1973سے وابستہ تھے۔ وہ سب سے پہلے بلاک سیکریٹری تھے جب وہ کشمیر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔1975-76میں انہیں آل انڈیا یوتھ کانگریس کا صدر بنایا گیا۔ 1977میں انہیں یوتھ کانگریس کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا جب سنجے گاندھی کو یوتھ کانگریس کی کمان سونپی گئی۔انہیں اندرا گاندھی کی گرفتاری پر 20دسمبر 1978سے جنوری 1979تک انہیں تہاڑ جیل میں بند کیا گیا۔1980میں سنجے گاندھی کی موت کے بعد انہیں دوبارہ یوتھ کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا۔23جون 1981کو راجیو گاندھی کو یوتھ کانگریس کی ممبر شپ دی گئی اور اسی سال دسمبر میں راجیو گاندھی کو یوتھ کانگریس کا صدر بنایا گیا۔غلام نبی آزاد کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہوں نے آنجہانی اندرا گاندھی، پی وی نرسہما رائو،راجیو گاندھی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ1982سے 2014تک کابینہ وزیر کی حیثیت سے کام کیا۔1980تک وہ پارٹی کے ہر ایک صدر کے دور میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔وہ2002تک کانگریس ورکنگ کمیٹی اور پارلیمانی بورڈ کے ممبر بھی رہے۔
آزاد کے8وفادار ساتھی
پارٹی سے الگ ہوگئے
بلال فرقانی
سرینگر // غلام نبی آزاد کی حمایت میں 8کانگریس رہنماؤں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ، جنہوں نے آج پرانی پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔جی ایم سروری، حاجی عبدالرشید، محمد امین بٹ، گلزار احمد وانی ، چوہدری محمد اکرم ، آر ایس چب،نریش گپتا اور سلمان نیازی نے استعفیٰ کا مشترکہ خط پیش کیا۔ان سبھی نے کہا کہ وہ غلام نبی آزاد کی حمایت میں پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔آزاد کے قریبی معتمد آر ایس چِب نے سونیا گاندھی کو لکھے خط میں کہا’’کانگریس پارٹی کے رکن کے طور پر کئی سالوں سے، یہ میری مخلصانہ کوشش رہی ہے کہ میں اپنی ریاست جموں و کشمیر کی بہتری کے لیے کام کروں، مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں کانگریس پارٹی نے میری ریاست کے مستقبل میں اپنا حصہ ڈالنے کی رفتار کھو دی ہے “۔
آزاد کا پارٹی چھوڑنا
کسی دھماکہ سے کم نہیں :عمر
نیوز ڈیسک
سرینگر//نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے غلام نبی آزاد کے استعفیٰ کو کانگریس کے لئے ایک زور دار دھچکا قرار دیتے ہوئے کہ کانگریس جیسی عظیم اور قدم پارٹی میں دھماکہ ہوتے ہوئے دیکھنے سے کافی افسوس ہو رہا ہے۔عمر عبداللہ نے بتایا کہ آزاد کا پارٹی چھوڑنا کانگریس کیلئے کسی دھماکہ سے کم نہیں ہے ۔ انہوں نے ٹویٹ میں کہا’’طویل عرصے سے افواہیں گردش میں تھیں تاہم یہ کانگریس کے لئے بڑا دھچکا ہے‘۔ان کا مزید کہنا تھا: ’شاید حالیہ دنوں میں پارٹی سے کنارہ کشی کرنے والے سب سے سینئر لیڈر ہیں ان کا استعفیٰ نامہ پڑھ کر تکلیف ہوئی‘۔