بلال فرقانی
سرینگر// عالمی یوم مزدور پر اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جموں کشمیر میں گزشتہ10برسوں کے وران زائد از 10لاکھ کنال زرعی اراضی سکڑنے کے نتیجے میں زرعی مزدوروں کی شرح میں بھی غیرمعمولی تنزلی دیکھنے کو ملی۔رہائشی کالونیوں اور تجارتی عمارتوں کی تعمیر کے رجحان میں اضافے سے زرعی اراضی سکڑ گئی جس کے نتیجے میں زرعی مزدوروں کی تعداد میں 75 فیصد کے قریب کمی واقع ہوئی۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق گزشتہ 3دہائیوں کے دوران 20فیصد زرعی زمین کو تجارتی اور رہائشی بستیوں میں تبدیل کیا گیا۔ اکنامک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ70فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ زرعی سرگرمیوں پر منحصر کرتی ہے ۔1961میں جہاں 85فیصد مزدور زراعت کیلئے کام میں لائے جاتے تھے وہیں ان کی تعداد آج 28فیصد پہنچ گئی ہے ۔کاشتکاروں کا بھی کہنا ہے کہ میکنیکل آلات کے متعارف ہونے سے بھی ماضی کے مقابلے میںمزدوروں کی تعداد گھٹ گئی،تاہم پہلے کے مقابلے میں کاشتکاروں اور ان کے کنبوں کی طرف سے کھیتوں میں کام کرنے کا رجحان کم ہوگیا۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق جموں کشمیر میں سال2005-6میں8.47 لاکھ ہیکٹر زراعی اراضی تھی،جو سکڑ کر7.94لاکھ ہیکٹر رہ گئی۔زرعی ماہر ڈاکٹر فرحین جاوید کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ10برسوں میں53ہزار ہیکٹر اراضی جو کہ10لاکھ60ہزار کنال کے برابر ہے،کو غیر زراعی اراضی میں تبدیل کیا گیا۔انہوں نے کہا’’بیرونی اور اندرونی عوامل کے علاوہ مسلسل خشک سالی، سیلاب اور طوفانی ہوائیں بھی زرعی شعبے میں روزگار میں گراوٹ کے ذمہ دار ہیں۔‘‘۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق سال2012میں ایک لاکھ58ہزار ہیکٹر اراضی پر پیدواری فصل لگائی گئی تھی،جو فی الوقت ایک لاکھ41ہزار ہیکٹر میں سکڑ گئی۔ محکمہ زراعت کی2011میں مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی میں ہی زائد از2 لاکھ کنال زراعی اراضی کو تجارتی و دیگر سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے میں تبدیل کیا گیا ۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق1952میںجب وادی میں18لاکھ کی آبادی تھی،میں ایک لاکھ63ہزار ہیکٹر اراضی پر دھان کی کاشتکاری ہوتی تھی،جو کہ ایک لاکھ30ہزار740ہیکٹر تک پہنچ گئی۔اسی طرح سے سال2003میں مکی کے تحت ایک لاکھ ہیکٹر اراضی تھی،جو کہ سال2012تک80ہزار14ہیکٹر تک پہنچ گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1950-51میں میں جموں کشمیر میں جہاں 32فیصد اناج درآمد کیا جاتا تھا وہیں اس کا حجم بڑ کر اب 82فیصد تک پہنچ گیا ہے ۔