جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ناجائز تجاوزات کے نام پر انہدامی کارروائی کرتے ہوئے گالف کورس سدھرا سے ملحقہ علاقہ جات میں 22پکے مکانات سمیت 80ڈھانچوں کو مسمار کردیاہے، جس پر مقامی لوگوں میں زبردست غم وغصہ پایاجارہاہے اور انہوں نے جے ڈی اے کے اقدام پر کئی طرح کے سوالات اٹھاتے ہوئے اس کارروائی کے خلاف احتجاج بھی کیا ۔ کیونکہ مقامی آبادی کا الزام ہے کہ جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایاجارہاہے اور اس طرح سے ان کاروائیوں کو اگر جانبدارانہ ٹھہرایا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا ، حالانکہ حکام کاکہناہے کہ اس علاقے پر ناجائز قبضہ کرکے تجاوزات کھڑی کی گئی تھیں جن کو منہدم کرکے دو سو کنال اراضی بازیاب کر والی گئی ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرا ت کوقانوناً جائز ٹھہرانے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے لیکن اس کےلئے ضروری ہے کہ ضابطہ کی کاروائی اور انہدامی عمل انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو اور اسے کسی مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے تک محدو نہ رکھا جائے۔ کیا جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور جموں میونسپل کارپوریشن یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اس نوعیت کے تجاوزات صرف ایک مخصوص طبقہ کی آبادیوں تک محدود ہیں، جبکہ باقی طبقے اس سےمبّرا اور پاک ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ جے ڈی اے، میونسپل کارپوریشن اور محکمہ جنگلات کے ریکارڈ کے مطابق ایسی بستیاں قائم کرنے میں دیگر طبقے بھی برابر شامل ہیں حتیٰ کہ ملحقہ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے غیر ریاستی باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی کئی علاقوں میں مکانات تعمیر کئے ہیں جن سے اگر یہ کہا جائے کہ ،متعلقہ ایجنسیاں آنکھیں موندھے ہوئے ہیں ،تو شاید غلط نہ ہوگا۔جموں میں اس طرح کی کارروائیوں کا آغاز چند سال قبل ہواتھا اور پی ڈی پی ۔بی جے پی دور حکومت میں سدھرااور دیگر کئی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے،پختہ رہائشی مکانات کو مسمار کیاگیا جبکہ اس کے برعکس مبینہ طور ایسی بستیوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایاگیا جہاں ریاستی ہی نہیں بلکہ غیر ریاستی شہری تک غیر قانونی طور پر پکے مکانات تعمیر کرکے آباد ہیں ۔ آج تک ان کےخلاف کبھی ایک بار بھی کوئی کاروائی نہیں ہوئی جبکہ ریاست کے اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی بستیوں میں وقت وقت پر انہدامی کاروائیوں کا عمل جاری ہے جس سے اب تک کئی ہنستے بستے گھرانے سڑکوں پر آگئے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست میں نامساعد حالات کے دوران خطہ پیر پنچال،خطہ چناب اور وادی کشمیر سے بڑی تعداد میں لوگوں نے جموں کوجائے امن تصور کرکے زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خرید کر مکانات تعمیر کئے اور پھر بچوںکی تعلیم وتربیت کیلئے وہیں رہنا شروع کردیا ۔دیگر اضلاع سے جموں آباد ہونے والے ہر ایک شخص کو یہ اراضی مفت میں نہیں ملی تھی بلکہ اس کیلئے اس کو قیمتیں ادا کرناپڑیں اور پھر مکانات کی تعمیر پر بھی سرمایہ صرف کرنا پڑا۔ اس سارے عرصہ کے دوران وقت کی حکومتوں نے نہ تو انہیں متنبہ کیا اورنہ ہی کوئی کاروائی کی گئی ۔اُس وقت جے ڈی اے اور میونسپل کاپوریشن کے حکام خاموش تماشائی بنے بیٹھےر ہے۔ کیا حکومت ان اداروں سے تعلق رکھنے والےاُس وقت کے افسران اور اہلکاروں کےخلاف کاروائی کرنے کی جرأت کرسکتی ہے؟یہ لوگوں کی طرف سے کیا جانے والا سوال ہے جس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جو کاروائی ہے وہ سراسر یکطرفہ ہے اور قانونی ہونے کے باوجود منصفانہ قرار نہیں دی جاسکتی کیونکہ جب یہ بستیاں تعمیر ہو رہی تھیں تو متعلقہ ادارے خاموشی بنائے ہوئے تھے اور اگر ابتداء سے کاروائی عمل میں لائی جاتی تو اس کو وسعت اختیار کرنے کا موقع نہ ملتا۔ آج کی کاروائی سے درجنوں گھرانے سڑکوں پر آگئے ہیں اور ان میں بیشتر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔سرکاری اراضی کو تحفظ ملناچاہئے اور ناجائز تجاوزات کے خلاف انہدامی کارروائیاں بھی ہونی چاہئیں لیکن ان کو کب تک ایک مخصوص طبقہ تک محدود رکھاجاتارہے گا اور کیوں مقامی اکثریتی طبقہ اور خاص کر ان غیر ریاستی عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی جنہوں نے نہ صرف مکانات تعمیر کرلئے ہیں بلکہ ان میں سے متعدد نے پشتنی باشندہ اسناد بھی حاصل کرلی ہیں ،جو ریاستی آئین و قانون کی صریحاًخلاف ورزی ہے۔لیکن متعلقہ ادارے اس پر خاموشی بنائے ہوئے ہیں۔جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور ریاستی انتظامیہ کو ایسی کارروائیوں، جس سے طبقاتی فرق کا عندیہ ملے، میں احتیاط اختیار کرنا چاہئے اور ان متاثرین کے ساتھ انصاف کیاجانا چاہئے جنہوں نے پائی پائی جمع کرکے مکانات تعمیر کئے ہوں گے ۔