ڈاکٹر منظور آفاقیؔ
دنیائے آب وگل کے اس وسیع وعریض کارخانے میںہر انسان پیدائشی طور پر آزاد پیدا ہوا ہے۔ ہر انسان کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی آزادانہ طور پر گزارے۔یعنی آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان بغیر کسی محدودات اپنی زیست کے اوقات بسر کریں۔بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی قوم اور کسی انسان میں یہ قطعاً اس چیز کا حق نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے قوم یا انسان کو اپنا غلام بنائے۔ اسی آزادانہ زندگی میںہر انسان کو اپنی اپنی پسند اور ناپسند کا شعور حاصل ہے۔اسی پسند اور ناپسند چیزوں میںجہاں پیشے کی بات کی جائے، تو میرے خیال میں سب سے معتبر اور آبرومند پیشہ استاد کا پیشہ ہے۔کیوں کہ استاد سچے معنوں میں ایک قوم کا معمارِ اول کا رول ادا کرتا ہے۔ہمارے پیارے نبیؐ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مجھے دنیا میں ایک معلم کی حیثیت سے بھیجا گیا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ہر قوم کی ترقی کا انحصار استادکی صحیح حکمتِ عملی پر ہی منحصر ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو ہر کسی کو بہ آسانی حاصل نہیں ہو تاہے،بلکہ اس کے لیے لگن اور محنت شاقہ کی ضرورت ہوتی ہے۔خیرجو بھی ہے ٹھیک ہے ،لیکن امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ تغیر وتبدل کا ہونا بھی لازمی شے ہے ۔مطلب یہ ہے کہ آج کل دنیا میں اس معتبر پیشے کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کا ماحول روا رکھا جاتا ہے۔بلکہ استاد کی عظمت کا فقدان قریہ قریہ شہر شہر مل جاتاہے ،اور شاید وباید اسی لئے آج دنیا کے مختلف اقوام ذلت اور پستی کا شکار نظر آرہے ہیں۔اس بات کے پیچھے صرف یہی راز پوشیدہ ہے کہ آج کل ہر قوم اور معاشرے میں استاد کی عظمت وحرفت کاکوئی سچا قدر شناس نہیں ملتا، اور شاید اسی لیے آج سقراطؔ،افلاطونؔ ،سکندر اعظم اور ارسطوؔ جیسے استاد دنیا میں نایاب ہو رہے ہیں۔ یہاں میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر دنیا کی ترقی اور معاشرے کی صحیح نگہداشت ایک استاد کی عظمت،احترام اور قدر شناسی میں مضمر ہے تو آئے دن انہی معمارانِ قوم کے خلاف اتنا ناروا سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔
ہر انسان اپنے اندر احساسات، جذبات اور فکریات کا گہراپن رکھتاہے۔ لیکن ان خیالات وجذبات کو بروئے کار لانے کے لیے داخلی اور خارجی محرکات کا ہونا بھی ضروری ہوتاہے، جو اکثروبیشتر داخلی جذبات میں ہی کارفرما رہتا ہے۔لیکن ان خیالات وجذبات کو صفحۂ قرطاس کرنے میں بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لیکن جب دل میںان جذبات واحساسات کا غبار حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو اس کو ہلکا کرنے کے لئے زبان سے بے ساختہ ایسے الفاظ اور کلمات ادا ہو جاتے ہیں،جو ایک بیکراں سمندر کی مانن ہوتی ہے جس میں افکاروخیالات کے ذخائر پوشیدہ ہوتے ہیں۔انسانی وجود کو وقت اور سماج کے تقاضوں نے کافی بدل دیاہے اورجب دل رازہا کا مجمع بن جاتا ہے، نگاہیں سوزِ اشک سے بے محابا جلسنے لگتے ہیںتو ایسی اُلجھنوں میںکوئی انسان راحت پا نہیں سکتا۔کیوں کہ غمزدہ انسان ماتم کرکے ہی فرحت اور مسرت پاتے ہیں ۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ شکستہ دل انسانوں کو غمخواری حاصل ہونے سے خوشی ملتی ہے۔فی الوقت میں یہاں اس وجہ سے لکھ رہا ہوں تاکہ اپنی اور اپنی سی شکستہ خاطرساتھیوں کے دل کا غبار بیان کیاجاسکیں، تاکہ آج معاشرے میں انسان اور انسانوں کے جذبات کے تئیں اُن کی ناقدرشناسی پر گفتگو کی جاسکے۔آج کل دنیا میں اساتذہ کے تئیں ناقدری، حوصلہ شکنی اور آدی واسی جیسا سلوک کو معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے۔یہاں میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرے لکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کی دل آزاری کی جائے ،بلکہ یہ مقصد مطلوب ہے کہ معاشرے میں پھیلی بدحالی اور مفلوک الحال لوگوں کی زندگی کو کسی حد تک صحیح سمت دی جانے میں فرضِ کفایہ ادا کیا جاسکے۔یہاں اب تمہیدی کلمات کے بعد اپنے موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ واقعی جموں وکشمیر میں کچھ لوگوں کے ساتھ آدی واسی جیسا سلوک کیا جارہا ہے ۔
ہر سال مرکز کے زیرِ انتظام جموں وکشمیر میں ہائر ایجوکیشن کی طرف سے کالجوں کی باضابطہ درس وتدریس کے لئے کنٹریکچول لکچرروں کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے۔یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے جو ہنوز جاری ہے۔تعینات ہونے والے کالگ لکچرر کالجوں میں زیرتعلیم بچوں کامستقبل سنوارنے کے لیے زمین وآسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہیں۔یعنی کالج کے بچوں کو معیاری اور جدید تعلیم سے آراستہ کرنے میں دن رات ایک کرکے انہیں اعلیٰ عہدوںپر فائز ہوتے ہوئے اپنے آپ پر فخر محسوس کرتے رہتے ہیں۔زمانے کی ستم ظریفی کہیں یا شومیٔ قسمت،ان کالجوں میں تعینات عارضی بنیادوں پر اساتذہ صاحبان کے ساتھ اعلیٰ حکام کی طرف سے سوتیلی ماں کا سلوک ہمیشہ روا رکھا گیا ہے۔یعنی کالج میں انہی جیسے تعلیم یافتہ مستقل بنیادوں پر پروفیسروں کی ماہانہ اُجرت ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔لیکن کالج کنٹریکچول اساتذہ جنہیں یو۔جی۔سی کے طے شدہ ضابطے کے مطابق انتخاب کیا جاتا ہے لیکن ماہانہ اُجرت دیتے وقت اپنی من مانی اور تانا شاہی کرتے چلے جاتے ہیں۔یعنی حکومت کی طرف سے ماہانہ صرف اٹھائیس ہزار (28000)روپیہ دیا جاتا ہے جو آجکل کی مہنگائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نہ ہونے کے برابر ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسے حالات میں ان کی گزر بسر کیسے ہو پا رہی ہے۔ اس بارے میں تھوڑی سی غور وفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوںکیا جارہاہے۔حالانکہ یہ اساتذہ جموں وکشمیر کے مختلف دور دراز علاقوں میں اپنی ڈیوٹی بخوبی انجام دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔حتیٰ کہ سردی کے موسم میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر گھروں سے نکل کر امتحانی مراکز میں اپنی تعیناتی مستقل بنانے میںبھی جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ جو رویہ اختیارکیا جاتا ہے وہ کافی افسوس ناک ہے جس کو بیان کرنے میں آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔
یہاں میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مضمون کے ابتدائی حصے میں جس بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ کالج کنٹریکچول لکچرروں کی حالت ایک آدی واسی قوم جیسی ہے۔اس کے پیچھے یہ راز مضمر ہے کہ مختلف کالجوں میں تعینات ان لکچرروں کی حیثیت صرف اور صرف ایک پچھڑے اور آدی واسی قوم جیسی ہے جنہیں ہائز ایجوکیشن محکمے کی طرف سے تعینات تو کیا جاتا ہے لیکن کالجوں میں اپنی ڈیوٹی کے دوران انھیں جن حالات اور مُنہ بنائے ہوئے چہروںکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ کافی چونکانے والا ہے۔مطلب یہ کہ کالج میں اُنھیںوہ وقعت اور عزت حاصل نہیں ہے جو ایک مستقل اسسٹنٹ پروفیسر اور دیگر ملازمیں کو حاصل ہے۔میں اس بات کا عینی شواہد ہوں کہ درجہ ٔ چہارم کے ملازمین بھی انھیں ہر معاملے میں اگنور کر رہے ہیں اور کبھی کبھار آپسی رنجش اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انھیں مستقل نوکری نہ ہونے پر طعن وتشنیع بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔محکمہ ہائر ایجوکیشن کی طرف سے جہاں کالجوں کا ماحول خوشگوار بنانے کے لیے مختلف دعوے توکیے جاتے ہیں،لیکن زمینی سطح پر وہ صفر کے مانند ہو جاتے ہیں۔بہرحال ان سنگین حالات کے پیش نظر بھی کالج کنٹریکچول لکچرر وں کی ماہانہ اُجرت میںابھی تک کسی قسم کی پیش رفت نہیں کی گئی ہے بلکہ انھیں اسی قلیل آمدنی میں اپنے اہل وعیال کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنی پڑتی ہے۔یہاں یہ بات غور طلب رہے کہ جموں وکشمیر کی موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے کھوکھلے وعدے تو خوب کیے تھے لیکن ابھی زمینی سطح پر وہ اب ہر وعدے سے مکرجاتے ہیں ۔بلکہ حد تو یہ ہے کہ عوام کی دیرینہ مانگوں کو لے کر اب آپس میں خوب طعنے کستے رہتے ہیں۔کیا ایسے سنگین حالات میں حکومت اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کی طرف سے ان کالجوں میں ایک زمانے سے کام کرنے والوں کے لیے کوئی مستحکم لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے یا نہیں؟جہاں تک ذرائع کا تعلق ہے آج تک حکومت اور اعلیٰ حکام کی طرف سے اس بارے میں کوئی سعی نہیں کی گئی ہے بلکہ حکومت کی طرف سے مسلسل بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ وقتی حکومت اور بیوروکریٹس(Bureacrats) بے روزگاری کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔یعنی اب بے روزگار نوجوانوں کو اس کے عوض اب بڑے بڑے بالی ووڈ اورہالی ووڈ کے شوز دیکھنے کو ملتے ہیں ۔کیا ایسے پروگراموں کے انعقاد سے بے روزگاری میں کسی حد تک قابو پایا جاسکے گا،اس کا جواب ہمیشہ نفی میں ملتا رہے گا۔سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا یہی ماننا ہے کہ اب وقتی حکمران اصلی مدعوں سے بھٹک کر لوگوں کو اور گمراہی میں دھکیل دینا چاہتے ہیں۔ایسے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے لوگوں کو ایک مسیحا کی ضرورت ہے جو عوام کے دکھ کامداوا کر سکیں ۔لیکن اس کے بدلے ان نوجوانوں کو اسمبلی ،ڈی۔ڈی۔ سی اور دیگر الیکشن جیسے سبز باغ دکھا کر انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بہرکیف زمانے میں تغیروتبدیلی آتی رہتی ہے لیکن جن لوگوں کو وقت ِمقررہ پر دوائی اور کھانے پینے کی چیزیں نہ ملنے سے جان چلی جائے گی اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف دہ بات کیا ہوسکتی ہے۔لیکن ایسے ستم زدہ لوگوں کے مشکلات آسان کرناکسی اجرِ عظیم سے کم نہیں ہے۔ہائے کسی کا کیا اچھاقول ہے :
’’دنیا میں لذتوں کا شمار نہیں لیکن کسی کی مشکل آسان کرنے میں جو لطف ہوتا ہے وہ کبھی عالمے دارد کہ درگفتن نمی آید۔‘‘
ایسی کسمپرسی کی حالت میں کون کس کی حاجت روا کر سکتا ہے۔خیر اُنھیںکسی سے کوئی گلہ شکوہ تو نہیں ہے لیکن اظہارِ بیان کرنے میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہوتی ہے۔آخر پر میں صاحبِ اقتدار سے ادباََ التماس کرتا ہوں کہ برائے کرم ان کنٹریکچول لکچرروں کی اذیت ناک حالت کو مد ِنظر رکھ کر ایسے مسائل پر اولین فرصت میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ ان اساتذہ کی زندگی کسی حد تک صحیح سمت میں جاچلے۔مجھے یقین کامل ہے کہ موجودہ حالات اور مہنگائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت بہت جلد اس مسلے کا کوئی مستقل حل نکال لے گی۔
رابطہ۔6005903959