رشید پروینؔ سوپور
’’اول یہ کہ کانگریس ا نڈیا اتحاد میں اجارہ داری کی پالیسی پر گامزن ہے ، دوئم یہ کہ جب وہ کسی ریاست سے جیت درج کرتے ہیں تو سب ٹھیک اور جب ہار جاتے ہیں تو ای وی ایم مشینوں کو مشکوک قرار دیتے ہیں۔‘‘ یہ چیف منسٹر عمر عبداللہ کا حالیہ بیان ہے جو کئی پہلوؤں سے نہایت ہی اہم اور معنی خیز ہے۔ بیان سے ظاہر ہے کہ وہ کانگریسی پالیسی کے نہ صرف متصادم ہے بلکہ ان کی تضحیک بھی اس بیان میں واضح نظر آرہی ہے۔آپ کو یا د ہوگا کہ اِس وقت بھی کانگریس این سی کی اتحادی ہے اور باہر سے اس سرکار کو حما یت دے رہی ہے۔ عمر کے اس بیان کو کسی نے پسند کیا ہو کہ نہیں ،لیکن بی جے پی نے اس بیان کو نہ صرف پسند کیا ہوگا بلکہ اس سے خوش آئند بھی قرار دیا ہوگا اور عمرعبداللہ کا یہ بیان بالکل واضح ہے کہ کانگریس کے لئے الارمنگ کہا جا سکتا ہے۔ مختصر سی بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ عمر سرکار کے لئے کانگریس کا اتحاد کوئی زیادہ معنی اور وزن دار نہیں لگتا اور اس کے پیچھے شاید یہ بھی خواہش ہو کہ بی جے پی سرکار کے ساتھ قربت اختیار کی جائے یا کم سے کم ان کا یہ تاثر اُبھر کر سامنے آئے کہ این سی مرکز کے ساتھ کوئی دوری بنائے رکھنے کے حق میں نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی خواہشات کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے ۔یوں بھی دیکھا جائے تو ماضی میں بھی این سی اقتدار کے دور میں مرکز ہی کا ساتھ دینے میںعافیت سمجھتی رہی ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مرکز کے ساتھ تصادم میں کئی بار انہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا ہے اور یہ سب کچھ کانگریس ہی کے دور میں ہوتا رہا ، اس لئے یہ ایسی کوئی انہونی نہیں کہی جاسکتی بلکہ ریاستی سرکار کوشش کرتی رہتی ہے کہ تصادم سے گریز کیا جائے۔عمر، بی جے پی کے حلقوں میں اس طرح کے بیانات سے کوئی نرم گوشے تلاش کرنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں؟ لیکن بی جے پی نے پہلے ہی ا پنے موقف کا اظہار کیا ہے ، جب امیت شاہ نے گذشتہ روز ہی کہا ہے کہ ’’ جموں و کشمیر ’سٹیٹ ہڈ‘ کی بحالی کے لئے ایک ٹائم فریم مقرر کیا جا چکا ہے اور ہم اس سے مناسب وقت پر بحال کریں گے بلکہ یہ بھی کہا کہ ہمیں ریاستی درجہ بحال کرنے کی کوئی جلدی نہیں ۔‘‘ دونوں پہلوؤں سے یہ عمر سرکار کی اس خواہش’ سٹیٹ ہڈ‘کی بحالی کا جواب ہے کہ ہم کسی طرح کسی کے کہنے پر یہ ریاستی درجہ بحال نہیں کریں گے بلکہ شاید اس وقت تک کے لئے اس سے طاق پر ہی رکھیں گے جب تک نہ سیاسی زمین بھی بی جے پی کی ہو اور سیاسی منظر نامہ بھی اُن کااپنا ہو، اور شاید سرکار بھی بی جے پی کی ہی ہو ،کیونکہ کبھی آج تک بی جے پی نے اس مناسب وقت کی وضاحت نہیں کی ہے اور نہ کبھی کسی وقت کا تعین کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی یہ سوچ اور فکر اپنی پارٹی یعنی بی جے پی کی پالیسی کے مطابق ہی ہے ، کیوں کہ ہر پارٹی اپنے سیاسی مفادات ہی کی رکھوالی کرتی ہے اور وہی اس کی اولین ترجیح ہوتی ہیں ، کونسی پارٹی اپنے سَر کا دستار کسی اورسَر پر رکھتی ہے؟ یہ ممکن ہی نہیں۔ الیکشن کے دوران آپ کو یاد ہوگا کہ بی جے پی نے مسلسل اور متواتر اس بات کا اعادہ کیا تھا اور اُن کے ہر پارٹی لیڈر نے یہ بات عوام کو بتادی تھی کہ ریاستی درجہ بہت جلد بحال کیا جائے گا، کیا یہ قرین قیاس نہیں کہ وہ عوام اور خصو صاً کشمیری عوام پر اشاروں کنائیوں میں یہ بات واضح کر رہے تھے کہ ہماری سرکار بن جاتی ہے تو اس کے بدلے میں سب سے پہلے ریاستی درجہ بحال کیا جائے گااور جب الیکشن نتائج اُن کے خلاف سامنے آئے تو انہوں نے اپنے اس تھیلے ہی کو بند کیا۔ ۵ ؍اگست ۲۰۱۹جب و ہ سب ایبروگیٹ ہوا تھا اور جموں و کشمیر کو یوٹی کا درجہ دیا گیا تھا ، اس کے بعد ہی کئی ایسے قوانین پاس ہوئے جن سے چیف منسٹر کی حیثیت اور اس کے اختیارات یوں بھی کیا رہ جاتے ہیں ؟ اس کی وضاحت عمرعبداللہ نے ہی بہت عمدہ طریقے سے کی تھی، جب انہوں نے کہا تھا کہ ’’ کشمیر کے چیف منسٹر کی حیثیت ایک چپراسی سے زیادہ کی نہیں جو بغل میں فائلیں دبائے گورنر ہاوس کے باہر کھڑا رہے اور میں اس طرح کا چیف منسٹر بننا نہ چاہوں گا ‘‘ یہ انتخابات سے پہلے کا بیان تھا لیکن بعد میں انہوں اپنے الیکشن میں حصہ لینے کی وجوہات بھی بتادیں جن میں اہم بات یہ تھی کہ وہ بی جے پی کوکشمیر کی حد تک دور رکھنا چاہتے تھے اور اسی مدعے پر این سی نے یہاں الیکشن بھی جیتا اور بڑی کامیابی حاصل کی، متن یہی تھا ،عمر کی بی جے پی کے قریب ہونے اور کانگریس سے بی جے پی کی خوشنودی میں دوری بنانے یا یو ٹرن کی آرزو بھی شدید شکل اختیار کرتی جارہی ہے کیونکہ ان مہینوں میں جو بھی اس نے بحیثیت چیف منسٹر کے مشاہدات کئے ہیں انہوں نے کھل کر ان پر بات کی ہے اور اس میں پردہ داری سے کام نہیں لیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ طاقت کے دو مراکز تباہی کا پیش خیمہ ہی ہوسکتے ہیں ، میں دو مہینوں سے وزیر اعلیٰ ہوںاور میں نے کہیں بھی کسی بھی طرح دوہرے نظام سے لوگوں کو کوئی فائدہ ہوتے نہیں دیکھا ۔انہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں کہا کہ مرکز کے زیر حکمرانی ترقی ممکن نہیں اور طاقت کے دو مراکز کی موجودگی میں کوئی کامیابی نہیں مل سکتی ،اس لئے ریاستی درجہ بحال کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان کا مقصد یہی ہے کہ ہم کھل کر کوئی کام اپنے طریقے سے نہیں کر پاتے ،اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ ان دو مہینوں میں کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں ہوا، جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکوں کہ جموں و کشمیر کو یوٹی کے اندر کوئی فائدہ ہوا ہے ، ہم اس پر بحث نہیں کریں گے کہ یہ صحیح ہے کہ اس میں مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا گیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی دو رائیں نہیں کہ یہ عمر کے اپنے مشاہدات ہیں جو بحیثیت چیف منسٹر کے انہیں حاصل ہوئے ہیں ، اس کے بعد عمر نے ایک بہت بڑی اور اہم بات کی ہے جس کی ابھی ہم بھی کوئی توضیح نہیں کرسکتے ، انہوں نے کہا کہ اگر جموں و کشمیر ایک ہائی برڈ ریاست بر قرار رہتی ہے تومیرے پاس بیک اَپ پلان بھی موجود ہے، جس پر میں وقت آنے پر بات کروں گا۔ عمر عبداللہ نے اپنے انٹر ویو میں یہ بھی جتلایا اور صاف کیا کہ لوگوں نے بلا خوف و خطر اس لئے ووٹ ڈالے ہیں کہ ریاست کا اپنا درجہ بحال کیا جائے گا، جیسا کہ الیکشن کے دوران بی جے پی کہتی رہی ہے اور عوام کو باور کراتی رہی ہے ، چاہئے کوئی بھی کسی پارٹی کی بھی سر کار آئے ، اس میں یہ تاثر کہیں نہیں تھا کہ بی جے پی سرکار آنے کی صورت ہی میں ریاستی درجہ بحال ہوگا ۔ظاہر ہے کہ چیف منسٹر بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بی جے پی ان کی سرکار کی استدعا پر یا ان کے دور میں شاید ہی ریاستی درجہ بحال کر دے۔شاید اس سوچ و فکر کے نتیجے میں این سی کانگریس سے یو ٹرن کی بات سنجیدگی سے سوچ رہی ہے تاکہ اس دوری کے نتیجے میں بی جے پی کے ہاں نرم گوشے تلاش کرنے میں مدد ملے ، یوں بھی دیکھا جائے تو حال میں این سی کے لئے کانگریس کا تعاون زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ این سی کو دیکھا جائے تو کبھی کانگریس کا ساتھ نہیں چھوڑا، اس کے باوجود کہ کانگریس کی اپنی تاریخ جموں و کشمیر سے متعلق ’’سو چہروں ‘‘ کی غماز ہے۔ جموںو کشمیر سے متعلق کانگریس کی سوچ اور پچھلے ۷۵ برسوں میںکیا اپروچ رہا ہے، جس کی وجہ سے کشمیر میں خصوصی طور پر اور جموں کے مسلم ائریاز میں بھی کانگریس کی سیاسی چالبازیوں ، فریب اور خوبصورت پردوں میں جھوٹ اور مکر آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن منکشف ہوا توعوامی سطح پر کانگریس سے دوریاں پیدا ہو تی چلی گئیں۔جس کی وجہ سے وہ کبھی کشمیری عوام کے لئے قابل بھروسہ نہیں رہی ۔ جموں وکشمیر ۴۷ ءسے پہلے بھارت کی کوئی ریاست نہیں تھی بلکہ یہاں جموں کی ڈوگرہ شاہی قائم تھی اور انگریز نے اس سر زمین کوکلہم طور پر فروخت کیا تھا ’’ قومے فرو ختنند و چہ ارزاں فروختنند ‘‘۔ مرحوم شیخ عبداللہ نے پنڈت نہروکے ساتھ ایک ایسی دوستی میں اپنے آپ کو باندھ دیا کہ تاریخی طور پر ان کی تگ و دو اور کشمکش اسی نقطے پر مرکوز رہی کہ کسی بھی طرح سے جموں وکشمیر کو پاکستان کی جھولی میں نہیں گرنے دینا ہے اور نہ کسی آزاد ریاست کی حیثیت سے اس کی تشکیل کرنی ہے ، اور ایسا ہی ہوا۔ شیخ عبداللہ پہلے وزیر اعظم جموں و کشمیر ہوئے لیکن اسی دوران چھوٹی سی مدت میں شیخ عبداللہ کو کانگریس کے دو غلے پن کا شدید احساس ہوا ، کیونکہ در پردہ پنڈت نہرو الحاق ہند کے وجود میں آنے کی شروعات سے اس کی بیخ کنی کے اقدامات کرنے لگے ۔ ۵۳ ۱۹ میں شیخ عبداللہ کو عقوبت خانوں کی نذر کرکے بخشی غلام محمدکو پلانٹ کیا گیا اور پھر ایک کے بعد ایک وزرائے عظم اور وزرائے اعلیٰ دہلی کی ڈولی میں بیٹھ کر کشمیر وارد ہوتے رہے۔ یہ سب سے بڑی وجہ رہی کہ کشمیری عوام نے جمہوری دلہن کی کبھی ایک جھلک بھی نہیں دیکھی ، شیخ عبداللہ کانگریس سے اتنے متنفر ہوئے کہ ایک بار انہیں گندی نالے کے کیڑے کہہ کر اپنی قوم کو ان سے ترکِ موالات کے احکامات صادر کئے ،اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ کانگریس جموں و کشمیر میں کئی چہروں کے ساتھ موجود رہی ہے اور آج بھی اس پارٹی کا یہی حال ہے ۔ اس پار ٹی نے ابھی تک کبھی ۳۷۰ اور ۳۵ اے سے متعلق اپنا موقف بیان نہیں کیا ہے بلکہ خاموشی اختیار کی۔ حالیہ عمر سرکار نے جو قرار داد ریاستی درجے کی بحالی کے لئے پاس کی اور جو مرکزی سرکار سے ان کا مطالبہ ہے ، اس کے بارے میں بھی کانگریس دوغلی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے ، کشمیر نشین کانگریسی تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ پارٹی آج بھی ان ہی خطوط پر اپنی حکمت عملیاں ترتیب دے رہی ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کانگریس پردہ نشین رہی ہے اور بی جے پی نے صاف صاف اپنے عزائم کا اعلان کیا ہے اور ان پر قائم ہے۔ این سی یا عمرعبداللہ کو پہلے ہی سے معلوم ہے کہ ان کے اختیارات کیا ہیں اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو این ، سی یا عمر سرکار بھی نئے راستے تلاش کر رہی ہے تاکہ بحیثیت چیف منسٹر کے کم سے کم و ہ اس قدر اپنے عوام میں پرفارم کر پائیں کہ لوگ ان سے یا اس سرکار سے مایوس ہی نہ ہوجائیں ، کیونکہ این سی کے ساتھ بھی اپنے ماضی کے گھناونے سائے ہیں اور اگر اس بار بھی یہ سائے ان کے تعاقب میں رہے تو اس کے کس طرح کے نتائج اخذ ہوں گے ،اس کے بارے میں ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔اس پسِ منظر میں عمرعبداللہ کے لئے نئے راستوں کی تلاش ناگزیر بنتی ہے ۔اس کے باوجود ہنوز دِلی دُور اَست!