بلال فرقانی
سرینگر//جموں و کشمیر میں زرعی شعبے سے متعلق جاری کی گئی تازہ ترین سرکاری رپورٹ نے خطہ میں زمین کے ناقص استعمال اور زرعی پالیسیوں کی خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سال 2023-24کیلئے اراضی کی درجہ بندی کے عنوان سے شائع رپورٹ کے مطابق، لاکھوں ہیکٹر قابلِ کاشت زمین یا تو غیر استعمال شدہ ہے یا مکمل طور پر زرعی سرگرمیوں سے باہر ہے، جس سے خطے میں زرعی خود کفالت کا خواب دور دور تک پورا ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بروقت اصلاحاتی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے پہلے ہی زرعی پیداوار میں کمی، غذائی عدم تحفظ اور دیہی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوچکے ہیں۔مرکزی وزارت زراعت و بہبود کاشتکار کے شعبہ اقتصادیات، معاشیات کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ ریاست/ مرکزی زیر انتظام خطہ میں اراضی کی درجہ بندی برائے سال2023-24کے مطابق جموں و کشمیر میں زرعی زمین کی بھرپور دستیابی کے باوجود اس کا مکمل استعمال نہ ہونا ایک تشویش ناک امر ہے۔ رپورٹ میں جموں و کشمیر کی رپورٹ شدہ زمین کا کل رقبہ 6,32,849 ہیکٹر ظاہر کیا گیا ہے، جس میں سے ایک بڑا حصہ یا تو غیر زرعی استعمال میں ہے یا زیر کاشت نہیں۔
رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر میں 3,83,649 ہیکٹر زمین جنگلات پر مشتمل ہے، جو جموں کشمیر کے قدرتی ماحول کا مظہر ہے۔ تاہم تقریباً 2,31,776 ہیکٹر زمین یا تو بنجر ہے یا غیر زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زرعی توسیع اور خود کفالت کی جانب سفر ابھی ادھورا ہے۔رپورٹ کے مطابق راجوری ایک اہم زرعی ضلع کے طور پر سامنے آیا ہے، جہاں 63,589 ہیکٹر زمین زیرِ کاشت ہے، اور 91,109 ہیکٹر زمین پر فصلیں اگائی جا رہی ہیں۔ اس ضلع میںسال میں ایک سے زائد فصلوں کی بوائی کا رقبہ 27,520 ہیکٹر ہے، جو کہ جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ادھمپور ضلع میں بھی 53,499 ہیکٹر زمین زیرِ کاشت ہے، اور وہاں بھی اضافی فصلیں اگانے کا رجحان موجود ہے، جس کا اندازہ 21,164 ہیکٹر دو بار بوئی گئی زمین سے ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق جموں ضلع میں 62,096 ہیکٹر زمین پر کاشت کی جا رہی ہے، جبکہ 15,025 ہیکٹر زمین پر سال میں ایک سے زائد بار فصل اگائی جاتی ہے۔ یہی رجحان کٹھوعہ ضلع میں بھی نظر آتا ہے، جہاں 62,142 ہیکٹر رقبہ زیرِ کاشت ہے۔وادی کشمیر میں شوپیان اور کولگام جیسے اضلاع میں زرعی سرگرمیوں کی بھرپور موجودگی نظر آتی ہے۔ شوپیان میں 35,028 ہیکٹر اور کولگام میں 39,400 ہیکٹر زمین پر کاشت ہو رہی ہے۔ دونوں اضلاع میں زمین کی زرخیزی اور قدرتی آبی وسائل کی دستیابی کی بدولت سیب، آلو، اور سبزیوں جیسی نقد آور فصلیں کامیابی سے اگائی جاتی ہیں۔تاہم رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں اب بھی 93,536 ہیکٹر زمین فالو لینڈ یعنی خالی پڑی زمین کے زمرے میں آتی ہے، جو یا تو وقتی طور پر چھوڑ دی گئی ہے یا گزشتہ کئی برسوں سے غیر فعال ہے۔ اگر اس زمین کو قابلِ کاشت بنایا جائے تو ریاست زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کر سکتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جدید زراعت، میکانائزیشن، زمین کی بحالی اور سبسڈی سکیموں کے ذریعے ان زمینوں کو دوبارہ زرعی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔زرعی ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ زمین کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ہر ضلع کی سطح پر جامع منصوبہ بندی کرے۔ خاص طور پر ان اضلاع پر توجہ دی جائے جہاں زمین کی بڑی مقدار غیر استعمال شدہ ہے، جیسے ریاسی، ڈوڈہ اور رام بن، جہاں کاشت کاری کے مقابلے میں غیر زرعی استعمال بہت زیادہ ہے۔