پرویز احمد
سرینگر //سال 2020تک پوری دنیا میں5سال کے کم عمر بچوں میں 149ملین قدمیں کمی، 45ملین پتلے اور 38.9فیصد بچے زیادہ وزن یا موٹاپے کے شکار تھے۔جموں و کشمیر میں 6 سے 18سال تک کے بچوں میں سے 41.3فیصد بچے غذائیت کے کمی کے شکار ہیں۔ ان میں 34.7فیصد کم وزن، 3.3فیصد میں وزن زیادہ اور 3.3فیصد موٹاپے کے شکار ہوچکے ہیں۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ جہاں ستمبر کے پہلے ہفتے کوغذائیت کا عالمی ہفتہ منایا گیاہے ، وہاں جموں و کشمیر میں بھی اس حوالے سے کئی تقریبات کا اہتمام کیا گیا جہاں بچوں کی نشو ونما والی غذائیں دینے پر زور دیا گیا۔ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے سال 2025تک بچوں میں غذائیت اورنشو و نما کی کمی کو 40فیصد سے کم کرنے کی حدمقرر کی گئی تھی۔ ان میں بچوں میں قدکی کمی میں 50فیصد، بالغ خواتین میں خون کی کمی میں 50فیصد ، کم وزن بچوں کی پیدائش میں 50فیصد کمی اور بریسٹ فیڈنگ میں 50فیصد کا اضافہ کرنے کا حدف دیا گیا تھا لیکن جموں و کشمیر میں صورتحال اس سے برعکس ہے اور یہاں ابھی بھی 41.3فیصد بچے غذائیت کی کمی کے شکار ہیں۔ ان میں 5سے 9سال کے بچوں میں سے 39فیصد، 10سے 15سال کے 56فیصد اور16سے 18سال کے بچوں میں سے 5فیصد ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 44فیصد کا وزن صفر سے 30پائونڈ، 7فیصد کا 31سے 60پائونڈاور ایک فیصد کا وزن 61سے 90پائونڈ تک ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں معروف ماہر امراض اطفال ڈاکٹر قیصر احمد کول کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں جموں و کشمیر میں غذائیت کی کمی کی بڑی وجہ لوگوں کا اقتصادی طور پر کمزور ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طاقت سے بھرپور غذا کی کمی بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں والدین بچوں کو طاقت سے بھری خوراک کے بجائے جنک فوڈ اور بازار کا کھانا کھلاتے ہیں اور اس کی وجہ سے بچے جسمانی طور پر مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہورہے ہیں۔ڈاکٹر قیصر نے بتایا کہ بچوں کو غذائیت کی کمی سے بچانے کیلئے جنک فوڈ میں کمی، متوازن غذا دینے کے علاوہ جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسمانی سرگرمیوں میں اضافے مثلاً کھیل کودبچوں کو کئی بیماریوں سے دور رکھ سکتا ہے۔