عادل جہانگیر
وادیٔ کشمیر، جو صدیوں سے حسن، سکون اور روحانیت کی علامت رہی ہے، آج ایک نئے مقصد کے ساتھ روشنی کی طرف بڑھ رہی ہے — یہ روشنی امید کی ہے، آگاہی کی ہے، اور زندگی کو بچانے کی جدوجہد کی ہے۔ اکتوبر کا مہینہ دنیا بھر میں Breast Cancer Awareness Month کے طور پر منایا جاتا ہے، اور جموں و کشمیر میں بھی اس شعور کو عام کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس مہم کا بنیادی مقصد خواتین میں چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی پیدا کرنا، بروقت تشخیص کو فروغ دینا، اور سماجی بدنامی (stigma) کو ختم کرنا ہے جو اکثر بیماری سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
چھاتی کا کینسر ایک خاموش خطرہ:
چھاتی کا کینسر دنیا بھر میں خواتین میں سب سے عام سرطان ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً 25 لاکھ سے زائد خواتین اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں اس بیماری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے، لیکن آگاہی کی کمی، خوف اور معاشرتی جھجک کی وجہ سے اکثر خواتین دیر سے علاج کرواتی ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ وادی کی خواتین اپنی صحت سے متعلق مسائل کو چھپاتی ہیں، انہیں بیان کرنا شرمندگی سمجھتی ہیں یا پھر انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ کوئی معمولی درد ہے جو وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہی خاموشی بیماری کو خطرناک بناتی ہے۔ اگر چھاتی کے کینسر کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر ہو جائے تو علاج نہ صرف ممکن ہے بلکہ مکمل صحت یابی کے امکانات بھی 90 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔
وادی میں آگاہی کی نئی لہر:
گزشتہ چند برسوں سے جموں و کشمیر میں صحت کے ادارے، اسپتال، این جی اوز اور سول سوسائٹی مل کر اکتوبر کے مہینے میں مختلف آگاہی پروگرام، واکس، سیمنارز اور اسکریننگ کیمپس منعقد کر رہی ہیں۔ سری نگر، بڈگام، اننت ناگ، بارہمولہ اور دیگر اضلاع میں Pink October کے نام سے تقاریب کا انعقاد ہو رہا ہے جہاں ڈاکٹرز، نرسز، طلباء اور سماجی کارکن خواتین کو معلومات فراہم کر رہے ہیں کہ کس طرح وہ اپنی صحت کے بارے میں باخبر رہیں، خود معائنہ (Self-examination) کریں اور وقتاً فوقتاً میموگرافی کروائیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، بالخصوص کالجز اور یونیورسٹیاں بھی اس مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔ خواتین طلباء کے لیے آگاہی لیکچرز، پوسٹر مقابلے، اور مباحثوں کے ذریعے شعور پیدا کیا جا رہا ہے۔ اسپتالوں میں Pink Ribbon Campaigns کے ذریعے لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ چھاتی کے کینسر کا علاج ممکن ہے، بشرطیکہ بیماری کو چھپایا نہ جائے۔
سماجی رویے اور خاموش جدوجہد:
ہماری معاشرتی ساخت میں خواتین کی صحت کو عموماً ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ بیشتر خواتین اپنے گھر والوں کی ضروریات کو اپنی صحت پر ترجیح دیتی ہیں۔ یہی سوچ انہیں اس حد تک نقصان پہنچاتی ہے کہ جب بیماری کا علم ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس رویے کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ مرد حضرات — خواہ وہ شوہر ہوں، بھائی، یا بیٹے — اپنی خواتین کو حوصلہ دیں کہ وہ کسی بھی غیر معمولی علامت کو نظرانداز نہ کریں۔
ڈاکٹرز کے مطابق، چھاتی میں گانٹھ، غیر معمولی درد، سوجن، یا رنگت میں تبدیلی ایسی علامات ہیں جنہیں فوراً معالج کو دکھانا چاہیے۔ لیکن اکثر خواتین ان باتوں کو معمولی سمجھ کر خاموش رہتی ہیں۔ یہ خاموشی بیماری کے بڑھنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے ہمیں سماج میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جہاں خواتین کھل کر اپنی صحت کے بارے میں بات کر سکیں، شرمندگی یا خوف کے بغیر۔
ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کا کردار :
جموں و کشمیر کے اسپتالوں میں ماہرین امراضِ نسواں، آنکولوجسٹ، اور نرسنگ اسٹاف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آگاہی اور ابتدائی تشخیص ہی کامیاب علاج کی بنیاد ہیں۔
SKIMS Srinagar، SMHS Hospital اور دیگر ضلعی اسپتالوں میں حالیہ برسوں میں چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے جدید سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ موبائل اسکریننگ یونٹس کے ذریعے دیہی علاقوں میں بھی خواتین تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صحت کے محکمے نے حالیہ دنوں میں Early Detection Saves Lives کے عنوان سے ایک خصوصی مہم شروع کی ہے، جس کے تحت خواتین کو خود معائنہ کے طریقے سکھائے جا رہے ہیں۔ یہ اقدامات ایک مثبت سمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
رنگِ گلابی میں امید کی جھلک :
اکتوبر کے مہینے میں جب دنیا بھر میں عمارتوں اور یادگاروں کو گلابی روشنیوں سے روشن کیا جاتا ہے، تو وادیٔ کشمیر بھی اس رنگ میں ڈھلنے لگی ہے۔ گلابی ربن اب صرف ایک علامت نہیں رہا بلکہ یہ امید، ہمت، اور زندگی کی علامت بن چکا ہے۔یہ روشنی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بیماری کا مقابلہ خاموشی سے نہیں، بلکہ شعور، حوصلے اور یکجہتی سے کیا جا سکتا ہے۔
آگے کا راستہ :
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آگاہی مہم محض ایک مہینے کی سرگرمی نہیں بلکہ ایک مسلسل سماجی ذمہ داری ہے۔ اسکولوں، کالجز اور میڈیا کو اس پیغام کو پورے سال عام کرنا چاہیے۔ گاؤں دیہات میں خواتین کو باقاعدہ تربیت دی جائے کہ وہ اپنی صحت کا خود خیال رکھ سکیں۔ مذہبی و سماجی رہنما بھی اس موضوع پر کھل کر بات کریں تاکہ بیماری کے گرد جو خوف اور شرمندگی کا پردہ ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ہٹ سکے۔
حکومت کو چاہیے کہ ہر ضلع میں باقاعدہ Breast Cancer Screening Units قائم کرے، اور میموگرافی کی سہولت ہر عام عورت کی پہنچ میں ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ علاج کے اخراجات میں رعایت اور سماجی تعاون بھی فراہم کیا جائے تاکہ غریب گھرانوں کی خواتین بھی علاج سے محروم نہ رہیں۔
امید کی روشنی کبھی مدھم نہ ہو :
جموں و کشمیر کے پہاڑ، جھیلیں اور وادیاں آج ایک نئے عزم کے ساتھ روشن ہیں — یہ روشنی ان خواتین کے لیے ہے جو بیماری سے لڑ رہی ہیں، ان کے لیے ہے جو صحت مند ہیں مگر باخبر بننا چاہتی ہیں، اور ان کے لیے بھی ہے جو آگاہی پھیلا کر دوسروں کی زندگیاں بچا رہی ہیں۔یہ روشنی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جہاں اندھیرا ہے، وہاں امید کی ایک کرن کافی ہے۔ اگر ہم سب مل کر اس پیغام کو آگے بڑھائیں، تو واقعی وادیٔ کشمیر امید کی روشنی سے جگمگا اٹھے گی۔
(رابطہ۔6005068748)