عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر+جموں // جموں اور کشمیر کے دونوں حصوں میں پہلگام میں ہوئی26 ہلاکتوں کے خلاف احتجاجی ہڑتال کی گئی۔بند کی کال زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی، سماجی،مذہبی، کاروباری و تجارتی، وکلا ،غیر سرکاری رضا کار تنظیموں اور سیول سوسائٹی نے دی تھی۔اس دوران سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی میں کام کاج بری طرح متاثر رہا جبکہ سرکاری دفاتر میں ملازمین نے اجتماعی طور پر دو منٹ کی خاموشی اختیارکی۔پہلگام میں ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے کشمیر سمیت ملک بھر میں صدمے کی لہرہے۔بہت سے لوگوں نے اس حملے کو کشمیریت کے جذبے اور خطے کی مہمان نوازی کی پرانی روایت پر ایک گھنانا حملہ قرار دیا ہے۔
وادی
حکام نے بتایا کہ سرینگر سمیت پوری وادی میں زیادہ تر دکانیں،پیٹرول پمپ اور دیگر کاروباری ادارے بند رہے۔پوری وادی میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند رہا جبکہ سکولوں اور کالجوں میں کوئی بھی طالب علم حاضر نہیں ہوسکے۔جبکہ یونیورسٹی میں تدریسی کام کاج مفلوج رہا۔وادی ان کا کہنا تھا کہ شہر سرینگر اور وادی کے دیگر قصبوں میں صرف اشیائے ضروریہ کی دکانیں کھلی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کم تھی، لیکن نجی گاڑیاں معمول کے مطابق چل رہی تھیں۔عہدیداروں نے بتایا کہ وادی بھر میں پرائیویٹ سکول بند تھے، لیکن سرکاری اسکول کھلے تھے، جن میں بچوں کی حاضری نہیں تھی۔انہوں نے بتایا کہ وادی کے دیگر ضلع ہیڈکوارٹروں میں بھی بند کا اثر دیکھا گیا۔وادی میں کئی مقامات پر پرامن احتجاج بھی کیا گیا، مظاہرین نے حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے معصوم لوگوں کے قتل کو روکنے کا مطالبہ کیا۔کئی سیاسی جماعتوں، سماجی مذہبی تنظیموں، تجارتی اداروں اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے حملے کے خلاف احتجاج کیا۔متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ احترام اور یکجہتی کے طور پر، پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن آف جموں و کشمیر نے بدھ کو جموں و کشمیر میں تمام نجی سکولوں کو بند رکھنے کا اعلان کیا۔کشمیر یونیورسٹی نے بدھ کو ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کر دیئے۔عہدیداروں نے بتایا کہ اہم تنصیبات، اہم سیاحتی مقامات اور شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کے ساتھ ساتھ دیگر اضلاع پر بھی سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔انہوں نے بتایا کہ شہر کے ساتھ ساتھ دیگر اضلاع میں کئی مقامات پر چیک پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں۔
جموں
پہلگام حملے کے خلاف بدھ کو جموں خطہ کے کئی حصوں میں مکمل بند منایاگیا۔جموں شہر کے علاوہ ریاسی، ادھم پور، کٹرا، کٹھوعہ اور سانبہ میں بھی بندکا اثر رہا۔جموں شہر کے کئی حصوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، بہت سے مظاہرین نے پاکستان مخالف نعرے لگائے۔ریاسی میں سینکڑوں لوگوں نے احتجاجی مارچ کیا اور ٹائر جلائے۔بند کے باعث جموں شہر میں معمولات زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئے۔ متعدد سول سوسائٹی گروپوں اور تجارتی اداروں کی طرف سے دی گئی بند کال کے جواب میں دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ بند رہا۔کئی تعلیمی ادارے بند رہے اور سرکاری دفاتر میں حاضری معمول سے کم رہی۔ جموں بار ایسوسی ایشن نے بھی ہلاکتوں کے خلاف بند منایا۔ایک افسر نے کہا، “بند کے دوران صورتحال معمول پر ہے۔ خطے میں کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔”انتظامیہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے کمیونٹی رہنمائوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔حکام نے بتایا کہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی اضافی تعیناتیاں حساس مقامات پر کی گئیں، جبکہ نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے چوکیاں قائم کی گئیں۔