سرینگر//جموں وکشمیر میں آئے دنوں موسم کی غیر یقینی صورتحال کو عالمی حدت سے تعبیر کرتے ہوئے ارضیاتی ماہرین نے کہا ہے شبانہ درجہ حرارت میں دن بدن اضافہ جبکہ برف کے مقابلے میں بارش کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے جس سے مستقبل میں زمین کے موسم پر شدیداثرات مرتب ہوں گے۔ ماہرارضیات کا کہنا ہے کہ 130سالہ موسمی ڈیٹا سے ثابت ہو تا ہے کہ جموں وکشمیر کے اوسط درجہ حرارت میں گذشتہ ایک صدی کے دوران1عشاریہ2ڈگری سلشیس اضافہ ہوا جوعالمی سطح کی اوسط0عشاریہ8ڈگری سلشیس کے اضافے سے کہیں زیادہ ہے جبکہ جموں وکشمیر مجموعی طو ر باقی دنیا کے مقابلے میں تیزی کی رفتار سے حدت پکڑ رہا ہے۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیاتی سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل رامشو نے موسمی تغیرات کو عالمی حدت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ’’ ارضیاتی شبانہ درجہ حرارت میں اضافے کی بدولت موسمی تغیرات کے سبب پہاڑوں پر واقع گلیشئر اور قطبی برف کی تہہ تیزی سے پگھل رہے ہیںجس کی وجہ سے برف اور بارش کی سالانہ مقدار پراثرات مرتب ہو رہے ہیں۔رامشو نے کہا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران جموں وکشمیر کے درجہ حرارت میں معمول کے درجہ حرارت سے 1عشاریہ2ڈگری سلشیس اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی مدت کے دوران عالمی درجہ حرارت کی اوسط میں 0عشاریہ8ڈگری اضافہ ہوا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اگر چہ ماہرین مانتے ہیں کہ موسمی تغیر اور گلوبل ورامنگ ایک عالمی صورتحال ہے لیکن کشمیر پر اس کے نمایاں اثرات ہیں ۔ان کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر کے قدرتی وسائل برف ، پانی اور بر فانی ریچ تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔پروفیسر رامشو کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں درجہ حرارت میں اضافہ زمینی خدوخال اور زمینی سطح سے اونچائی پر منحصر ہے جبکہ عام طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمالیائی اور دیگر پہاڑی سلسلوں میںحدت زیادہ ہوتی ہے تاہم درجہ حرارت جگہ کی نسبت سے تبدیل ہوتاہے اور درجہ حرارت محل وقوع،عرض بلند،طول بلند اور سطح سمندر سے اونچائی کی مناسبت سے ہوتاہے ۔رامشونے کہا کہ موسمی تغیر کے اثرات زمینی سطح پر پہلے ہی محسوس کئے جا رہے ہیں اورناقابل اعتباری برف باری اور بارشوں کاطرز ،غیر معمولی طور پر سرد موسم میں گرمی کی شدت حقیقت میں جموں وکشمیر کی ماحولیاتی تغیرات کی خصوصیات ہیں ۔ انہوںنے مزید کہا کہ حالانکہ موسم کے مطابق باراں میں نمایاں کمی ہی صرف یہاں تشویش کا باعث نہیں ہے بلکہ جموں وکشمیر کے شبانہ درجہ حرارت میں اضافہ بھی تشویش کے قابل ہے ۔محکمہ موسمیات کے ماہرین بھی عالمی حدت کی وجہ سے شبانہ درجہ حرارت میں اضافہ کا اعتراف کرتے ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر میں درجہ حرارت کی اوسط میں اتنا اضافہ ممکن نہیں ہے ۔ سرینگر میں مقیم محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر مختار احمدکے مطابق گذشتہ ایک صدی کے دوران عالمی درجہ حرارت میں 0.75ڈگری سلشیس اضافہ ہوا ہے جواگرچہ برائے نام ہے تاہم مستقبل میں اس کے خطر ناک نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں گلوبل وارمنگ ہو رہا ہے تو وہیں زمین پر گلوبل ڈیمنگ (یعنی زمین گرم ہونے کے ساتھ ساتھ معمول سے زیادہ ٹھنڈی بھی ہو رہی ہے)۔ ڈاکٹر مختار نے کہا کہ محکمہ موسمیات کو کئی سٹیشنوں سے پانی کاآبی بخارات میں تبدیل ہونامعمول سے کم دکھائی دے رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حدت کیساتھ ساتھ کئی مقامات پر زمین پر ڈیمنگ یعنی زمین ٹھنڈ پکڑ رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے زمینی خدوخال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تخمینہ لگایا جاسکتاہے کہ گذشتہ صدی کے دوران یہاں اوسط درجہ حرارت میں 0.4 سے 0.5کا اضافہ ہوا ہے۔انہوںنے کہا کہ موسمیات سے متعلق عالمی تنظیم کی رپورٹ میںبھی کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی بلاشبہ ہو رہی ہے جس کے اثرات سب سے زیادہ ہڈرومیٹرلاجی پر مرتب ہو رہے ہیں ۔محکمہ موسمیات کے پاس دستیاب اعداد وشمار کے مطابق مونسون موسم میں باراں کی مقدار میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے جبکہ ارضیات کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔محکمہ موسمیات کے صوبائی دفتر سرینگر میں دستیاب اعدادو شمارسے پتہ چلتاہے کہ 1901سے2017کے دوران؎ جموں وکشمیر میں برف کی مقدار میں نمایاں گراوٹ آئی ہے جبکہ اس مدت کے دوران سب سے زیادہ برف سال1931میں پڑی ہے ۔ اعدادوشمارکے مطابق سال 1931میں 275میلی میٹر ،1950میں210میلی میٹر،1959میں 175میلی میٹر،2006اور2017میں برف کی اوسط160سے165میلی میٹر رہی ۔آفات سماوی سے متعلق محکمہ دیزاسٹر منیجمنٹ کا ماننا ہے کہ اگرچہ عالمی حدت کے باعث ارضیاتی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم اسے موسمی تبدیلی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا جبکہ موسمی تبدیلی سے مراد صرف موسم کے خدو خال بدلنے سے ہیں جس میں کئی برسوں تک برف اور بارش نہ پڑنا،مسلسل خشک سالی رہنا وغیرہ شامل ہیں ۔ریاستی حکومت میں صوبائی انتظامیہ میں ڈیزاسٹر منیجمنٹ سیل کے کارڈینٹر عامر علی کا کہنا ہے کہ ’’ یہ حقیقت ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ارضیاتی درجہ حرارت میںبتدریج اضافہ ہورہا ہے لیکن جموں وکشمیر میں گلوبل وارمنگ کو موسمیاتی تغیرات سے نسبت نہیں دی جاسکتی ‘‘۔ان کا ماننا ہے کہ موسمی تبدیلی سے مراد مسلسل کئی برسوں تک موسم کا ایک ہی نوعیت پر قائم رہنا ،جیسے بارش اور برف نہ پڑنا،قحط سالی، سیلاب، طوفان اور گرمی کی لہریں بہت دیر قائم رہنا شامل ہیں ۔ بین الاقوامی ایکشن ایڈنامی ادارہ نے کشمیر میں ماحولیاتی تغیر کے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کشمیر خطہ میں درجہ حرارت میں اوسط1عشاریہ45ڈگری سلشیس اضافہ دیکھا جارہا ہے جبکہ جموں میں2عشاریہ 32ڈگری سلشیس اضافہ ہوا ہے ۔بھارتی محکمہ موسمیات کے نگراں شعبہ نے دونوں خطوں میں شبانہ درجہ حرارت میں اضافے کا اعتراف کیا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں ہر سال 0عشاریہ 05ڈگری سلشیس کا اضافہ ہو رہا ہے ۔ جموں وکشمیر میں درجہ حرارت اور باراں سے متعلق مشاہدوں کی پیمائش سے لیا جانے والا ڈیٹا اتنا مکمل نہیں ہے کہ اس سے موسمی تبدیلی کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ لیا جاسکے تاہم مختلف سطحوں پر کئی سائنس دانوں کی جانب سے حاصل کئے گئے رجحانات ریاستی عام کے لئے چشم کشا ہے۔ باراں سے متعلق 2011 کی تحقیقی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سالانہ بارش اور بارشوں کے ایام خطہ میں کم ہو رہے ہیں جبکہ بارش کی سالانہ مقدار جموں خطہ میں ر بیع موسم کے دوران 2.0سے8.4میلی میٹر کی رفتار سے نزولی کا رجحان دکھا رہی ہے تاہم خریف فصلوں کے موسم میں کوئی نمایاں رجحان دیکھنے کو نہیں ملتاہے جبکہ کشمیر خطہ کی صورتحال اس سے ابتر ہے۔ماہر ارضیات مانتے ہیں کہ موسمی تغیرات کے مکمل اثرات غیریقینی ہیں، البتہ اندازہ ہے کہ اس سے صاف پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو گی، خوراک کی پیداوار میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی، اور سیلابوں، طوفانوں، قحط سالی اور گرمی کی لہروں میں اضافے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اموات واقع ہو سکتی ہیں۔موسم تبدیل ہو جانے سے پھول وقت سے پہلے کھل جائیں گے جبکہ بارشوں میں اضافہ ہو جائے گا لیکن سمندر سے دور علاقوں میں خشک سالی ہو گی اور موسمِ گرما کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔اس کے علاوہ سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے طوفان اور سیلاب آنے کا خطرہ بڑھ جائے گا، تاہم دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ملیریا، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور قحط سالی سے لاکھوں لوگ موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔اس کے علاوہ سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے سے ان کی تیزابیت بڑھ جائے گی۔ اس سے سمندری حیات اور کورل ریف پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔