محمد امین میر
زمین اور ریونیو سے متعلق ریکارڈز کسی بھی خطے کی حکمرانی، اقتصادی ترقی اور قانونی ڈھانچے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ جموں و کشمیر، جو کہ ایک پیچیدہ تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی پس منظر رکھنے والا یونین ٹیریٹری ہے، میں ریونیو سسٹم کو جدید بنانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ زمین کے ریکارڈز میں تضادات، پرانے جمع بندیاں اور گرداوریاں، اور عوام کے لیے معلومات کی محدود رسائی شفافیت، کارکردگی اور انصاف کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔اس کے برعکس، ہریانہ ایک ترقی یافتہ ماڈل پیش کرتا ہے۔ Jamabandi.nic.in جیسے ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈ سسٹمز اور باقاعدہ، ٹیکنالوجی سے معاون گرداوری اندراجات کے ساتھ ہریانہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جدیدیت مؤثر اور عوام دوست ہو سکتی ہے۔ جموں و کشمیر ہریانہ کے اس تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔یہ مضمون ان عملی طریقوں کا جائزہ پیش کرتا ہے جنہیں جموں و کشمیر کا ریونیو ڈیپارٹمنٹ اختیار کر سکتا ہے تاکہ اپنے زمین کے ریکارڈز کو ہریانہ کے معیار کے مطابق لایا جا سکے، خصوصاً جمع بندی اور گرداوری کے شعبوں میں۔ اس کے ساتھ ساتھ پالیسی پر عمل درآمد، شراکت داروں کی شمولیت اور ٹیکنالوجی کو اپنانے کے حوالے سے مخصوص تجاویز بھی دی گئی ہیں۔
موجودہ صورتحال کا جائزہ — جموں و کشمیر۔متعدد اصلاحاتی کوششوں کے باوجود جموں و کشمیر میں زمین کے ریکارڈز درج ذیل مسائل سے دوچار ہیں: دستی اندراجات اور معلومات کی تکرار،ڈیجیٹلائزیشن کا نامکمل عمل،حقوق اراضی کے ریکارڈز اور نقشوں کے درمیان ناقص ربط،شہریوں کی زمین سے متعلق معلومات تک محدود رسائی،ریکارڈز کی کمزور اپڈیٹنگ، جس سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔خطے کی متنوع جغرافیائی ساخت، انتظامی رکاوٹیں اور ریونیو انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی کمی نے ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ہریانہ کا ماڈل کیوں اہم ہے؟
ہریانہ نے ’’ڈیجیٹل انڈیا لینڈ ریکارڈز ماڈرنائزیشن پروگرام (DILRMP)‘‘ کے تحت زمین کے ریکارڈز کی کامیاب ڈیجیٹلائزیشن کی ہے۔ اس ماڈل کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں:مرکزی ڈیجیٹل پلیٹ فارم (Jamabandi.nic.in)،فیلڈ انسپیکشنز اور مرکزی ریکارڈز میں ریئل ٹائم ہم آہنگی،جیو ریفرنسڈ کڈسٹرل میپنگ، خاصرہ نمبرز کے ساتھ منسلک،موبائل ایپلی کیشنز اور سیٹلائٹ امیجری کے ذریعے گرداوری کی جدید اپڈیٹس،عوامی رسائی کے لیے ویب پورٹل اور کامن سروس سینٹرز۔جموں و کشمیر کے لیے قابل عمل اقدامات۔ریونیو نظام کی اصلاح کے لیے چار اہم شعبوں پر توجہ دینا ضروری ہے:
۱۔ ادارہ جاتی اصلاحات:ڈیجیٹل ریونیو سیل کا قیام،ذمہ داریوں کا تعین اور کارکردگی کے معیارات،محکمانہ ڈھانچے کی ترتیب نو۔
۲۔ ٹیکنالوجی کا استعمال :جمع بندی ریکارڈز کی مکمل ڈیجیٹلائزیشن،GIS کے ذریعے زمین کی نقشہ سازی،GPS اور موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے گرداوری،(Unified Land Information System ULIS)،بلاک چین اور ڈیجیٹل دستخطوں کا استعمال۔
۳۔ تربیت و استعداد کار :پٹواریوں اور دیگر اہلکاروں کی تربیت،آئی ٹی ماہرین کی بھرتی،عوامی آگاہی مہمات۔
۴۔ قانونی و پالیسی اصلاحات :زمین کے حقوق کو آسان زبان میں کوڈفائی کرنا،ریکارڈز کی ہر چھ ماہ میں لازمی اپڈیٹنگ،سنگل ونڈو میوٹیشن سسٹم،آن لائن شکایات اور تنازعات کے حل کے فورمز،مرحلہ وار نفاذ کا خاکہ۔قلیل مدتی (0-6 ماہ)موجودہ ڈیجیٹلائزیشن کا آڈٹ،پائلٹ پروجیکٹس،ابتدائی تربیت۔درمیانی مدتی (6-18 ماہ)تمام تحصیلوں میں سسٹم کا نفاذ،عوامی پورٹل کا آغاز،شعبہ جات کے مابین انضمام۔طویل مدتی (18-36ماہ)،مکمل GIS میپنگبلاک چین لاگنگ،قانونی اصلاحات اور بین الریاستی ہم آہنگی۔مزید تجاویز:مقامی جامعات اور اداروں کی شمولیت،دیگر ریاستوں کے ماڈلز سے سیکھنا،دیہی اداروں کی شراکت،موثر شکایت نپٹارہ نظام کا قیام،آزاد آڈٹس اور عوامی رائے شماری،فنڈنگ اور سیاسی عزم کی فراہمی۔
نتیجہ :جموں و کشمیر میں ریونیو ریکارڈز کو ہریانہ جیسے ماڈلز کے مطابق بنانا نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ ٹیکنالوجی، ادارہ جاتی اصلاحات، قانونی تبدیلیوں اور عوامی شراکت داری کے امتزاج سے ایک شفاف، منصفانہ اور قابل رسا4ئی ریونیو نظام کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔جموں و کشمیر جیسے حساس اور متحرک خطے کے لیے درست اور جدید زمین کے ریکارڈز صرف انتظامی ضرورت نہیں بلکہ امن، ترقی اور انصاف کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
[email protected]