سرینگر //سینٹرل یونیوسٹی کے شعبہ قانون نے اقوام متحدہ کے ادارہ امداد برائے اطفال( یو این آئی سی ای ایف) کے اشتراک سے جمعرات کو ’’جموں و کشمیر میں حقوق اطفال کی قانونی حیثیت اورآگے بڑھنے کے امکانات‘‘ کے موضوع پر ایک مباحثہ منعقد ہوا جس میں لیگل سٹڈیز کے ڈین اور شعبہ قانون کے سربراہ پروفیسر شیخ شوکت، بھارت میںیو این آئی سی ایف حفاظت اطفال کی ماہر تنستھا دتتا، جموں و کشمیر میںیو این آئی سی ای ایف میں حفاظت اطفال کے کنسلٹنٹ ہلال احمد بٹ، حفاظت اطفال کے قانونی ماہر اننت استھانہ کے علاوہ یونیوسٹی کے فیکلٹی ممبران ، سکالروں اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا ۔ اس موقعے پر سینٹرل یونیوسٹی کے شعبہ لاء اور یو این آئی سی ای ایف نے یونیوسٹی کے اندر نامسائد حالات سے متاثر طلبہ کو قانون امداد دینے کیلئے سیل قائم کیا جائے گا۔ اپنے ابتدائی خطبے میں پروفیسر شیخ شوکت نے کشمیر میں بچوں کی حالت اور پریشانیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی اور مسائل سے نپٹنے کے بارے میں جانکاری کی کمی پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ شورش زدہ علاقوں میں بچوں کے حقوق اور قانونی امداد پہلا نشانہ بن جاتے ہیں۔ پروفیسر شیخ شوکت نے کہا کہ شعبہ لاء نے قانونی جانکاری مہم پورے کشمیر میں شروع کی ہے تاکہ لوگوں کو انکے قانون حقوق کے بارے میں جانکاری دی جائے۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے ہلال احمد بٹ نے کہا کہ ایو این آئی سی ای ایف بچوں کیلئے پوری دنیا میں کام کرتی ہے اور کشمیر میں تنظیم نے سال 1987سے قبل کام کرنا شروع کیا تاہم چند سال بعد سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے تمام سرگرمیاں بند کرنی پڑی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یو این آئی سی ای ایف نے کشمیر میں سال 2014میں دوبارہ کام کرنا شروع کیا اور کشمیر میں بچوں کی حفاظت کیلئے کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یواین آئی سی ای ایف حکومت کو تیکنیکی مشوروں کے علاوہ سرکاری افسران کو بچوں کی حفاظت کے بارے میں جانکاری دیتے ہیں۔ تنستھا دتتا نے کہا کہ بچوں کی طرف سے کی جاننے والی غلط حرکتوں پر روک لگانا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں والدین اور سماج اہم کردار نبھاتا ہے۔ اننت استھانہ نے جموں و کشمیر میں اپنے تجربات کے بارے میں طلبہ کو بتایا ۔انہوں نے کہا کہ قانونی امداد فراہم کرنے کیلئے سیل قائم کرنا انتہائی مفید ہوگا۔