پرویز احمد
سرینگر // بھارت میں سب سے زیادہ ادویات استعمال کرنے والی ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں جموں و کشمیر سرفہرست ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جموں و کشمیر آنے والی ہزاروں سینکڑوں کمپنیوں کی ہزاروں قسم کی ادویات کے معیار اور تجارت پر نظر رکھنے کا کوئی بھی مکمل نظام موجودنہ ہونا ہے۔ ادویات پر نظررکھنے والے محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگ کنٹرول آرگنائزیشن حکام بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ لکھن پور میں بیرون ریاستوں سے آنے والی ادویات کی جانچ پڑتال کا کوئی بھی انتظام موجود نہیں ہے۔ لیکن محکمہ کا کہنا ہے کہ وہ بازاروں اورگوداموں میں موجود ادویات کے نمونے حاصل کرکے ان کی جانچ پڑتال ضرورکی جاتی ہے۔ جموں و کشمیر میں ادویات کا کاروبار کمسٹس اور ڈسٹریبوٹرس کے حد ودسے بھی باہر نکل چکا ہے۔ سرینگر کمسٹس اور ڈرگسٹس ایسوسی ایشن چیئر مین عبدالاحد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’لکھن پور میں ادویات کیلئے چیک پوسٹ ہونا لازمی ہے کیونکہ وہاں سے ہی ادویات آتی ہیں ، تاکہ جموں و کشمیر میں داخل ہونے سے پہلے ہی ادویات کے معیار کی جانچ پڑتال ہوتی لیکن ایساا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ لکھن پور سے مختلف اشیاء کو لیکر روزانہ 200سے زائد ٹرک جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں اوران میں سے 2 یا 4ٹرکوں میں ادویات موجود ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لکھن پور اور ڈلگیٹ میں محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگ کنٹرول کی لیبارٹریاں تو موجود ہیں لیکن یہ لیبارٹریاں کچھ بھی کام نہیں کرتی ہیں۔ عبدالاحد نے بتایا ’’ ہونا تو یہ چاہئے کہ ادویات کے جموں و کشمیر میں داخلے سے پہلے ہی چیک کی جائیں لیکن ایسا نہیں ہوتا اور اسلئے کوئی بھی غیر معیاری ادویات ذاتی گاڑیوں میں بھی لاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ ادویات فروخت کرنے والے دوا فروشوں کی کوشش رہتی ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کی ادویات کو لوگوں کیلئے دستیاب رکھیں لیکن اب یہ تجارت منظور شدہ تاجروں تک محدود نہیں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اپنے کلنکوں میں مخصوص کمپنیوں کی ادویات لکھتے ہیں جو کسی کے پاس نہیں ملتیں ، لہٰذا ان ادویات کیلئے لوگوں سے من مرضی کی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔ عبدالاحدنے مزیدبتایا کہ قوائد و ضوابط کے مطابق ڈاکٹر ی کلنکوں پر صرف 560روپے کی ادویات ایمرجنسی مریضوں کیلئے رکھ سکتا ہے لیکن یہاں ہر کلنک وںپر لاکھوں روپے کی ادویات رکھی جاتی ہیں اور وہ ادویات کہاں سے آتی ہیں وہ کسی کو معلوم نہیں ہوتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈلگیٹ میں قائم لیبارٹری کافی پرانی اور بوسیدہ ہوچکی ہے جو کسی کام کی نہیں رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری لیبارٹریوں میں نمونوں کی تشخیص کیلئے مہینوں درکار ہوتے ہیں اور جب تک رپورٹ آتی ہے ، اس دوائی کی معیاد گذر چکی ہوتی ہیاور متعلقہ محکمہ صرف کمسٹوں کو ہی نشانہ بناتا ہے اور صرف ان کی دکانیں ہی سیل کی جاتی ہیں۔عبدالاحد نے کہا کہ اگر سرکار اس تجارت کو بہتر اور منظم طریقے سے چلانے کا کوئی نظام قائم کریں تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔ سٹیٹ ڈرگ کنٹرولر لوٹیکہ کجھوریہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’لکھن پور میں ادویات کی جانچ پڑتال کا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہے کیونکہ وہاں سے اتنے ٹرک گذرتے ہیں کہ وہاں ادویات کی جانچ پڑتال ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈسٹریبوٹرز اور بازار سے نمونے اٹھاکر ان کی تشخیص کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادویات بنانے والی کمپنیوںکے پاس ٹیسٹنگ کا نظام موجود ہوتا ہے اور وہ اپنی ادویات کا خود ہی ٹیسٹ کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شکایت ملنے پر ہم بھی مختلف ادویات کی جانچ کرتے ہیں اور غیر معیاری ہونے پر جرمانہ پر عائد کیا جاتا ہے۔لوٹیکہ کھجوریہ نے بتایا کہ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر میں سالانہ 7500نمونوں کی تشخیص ہوتی ہے جن میں 2500ڈلگیٹ اور 5000 لکھن پور میں قائم نئی لیبارٹری میں ہوتے ہیں۔