محمد امین میر
حالیہ برسوں میں جموں و کشمیر کے تعلیمی منظرنامے میں ایک تعلیمی طور پر اہم اور سماجی لحاظ سے دلچسپ رجحان نے مستقل بنیادوں پر اپنی جگہ بنائی ہے۔ جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن (JKBOSE) کے امتحانات میں لڑکیوں کی مسلسل اور نمایاں برتری کا بار بار سامنے آنے والا رجحان محض ایک اتفاقی اعداد و شمار یا عارضی انحراف نہیں، بلکہ تعلیمی میدان میں صنفی درجہ بندی کے ایک گہرے تغیر کی نشاندہی کرتا ہے اور اس رجحان کے اسباب کو گہرائی سے سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔
لڑکیوں کی تعلیمی بالادستی، جو ہر سال کے میرٹ لسٹ میں واضح طور پر نظر آتی ہے، صرف تدریسی شرکت میں بہتری کا نہیں بلکہ نفسیاتی، سماجی اور خاندانی عوامل میں تبدیلی کا مظہر ہے۔ یہ مضمون اعداد و شمار، نفسیاتی و سماجی نظریات، تعلیمی پالیسیوں اور زمینی حقیقتوں کی بنیاد پر اس رجحان کی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران لڑکیاں کس طرح سے بورڈ کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کر رہی ہیں۔
اعداد و شمار کی بنیاداور تعلیمی کارکردگی میں صنفی فرق:
اعداد و شمار غیر مبہم ہیں۔ 2024 کے JKBOSE کے بارہویں جماعت کے نتائج میں لڑکیوں کی کامیابی کا تناسب 77 فیصد رہا، جب کہ لڑکوں کا تناسب 72 فیصد تھا۔ سائنس، کامرس، آرٹس اور ہوم سائنس کے تمام شعبہ جات میں سرفہرست پوزیشنز لڑکیوں کے نام رہیں۔ یہ کوئی وقتی اتفاق نہیں۔ 2023 میں بھی لڑکیوں کی شرح کامیابی 68 فیصد اور لڑکوں کی 61 فیصد تھی۔ 2022 میں یہ فرق مزید بڑھا اورلڑکیوں کا 78 فیصداور لڑکوں کا 72 فیصدشرح رہا۔
ہر سال کے ٹاپ 10 میرٹ لسٹس زیادہ تر لڑکیوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ مسلسل رجحان گہرے اسباب کا متقاضی ہے اور محض سطحی وجوہات پر اکتفا کرنا علمی بددیانتی ہو گی۔
تاریخی ناہمواریوں کا خاتمہ :
ماضی میں جموں و کشمیر کی لڑکیاں، باقی بھارت کی طرح، پدرشاہی سوچ، تعلیمی رسائی کی کمی اور سماجی پابندیوں کا شکار رہیں۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں حکومت کی متعدد اسکیموں جیسے ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘، مڈ ڈے میل اور مفت کتابیں، نیز گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت ان رکاوٹوں میں کمی آئی ہے۔اس تاریخی محرومی کے تدارک کے طور پر لڑکیوں نے نہ صرف تعلیم میں برابری حاصل کی، بلکہ وہ محنت اور کارکردگی کے میدان میں آگے نکل گئیں۔
نفسیاتی عوامل۔ نظم و ضبط، ارتکاز اور تاخیر شدہ تسکین :
نوجوانی میں لڑکیوں کی جذباتی نظم و ضبط، توجہ اور طویل المدتی کامیابی کے لیے محنت کرنے کی صلاحیت عمومی طور پر لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ امتحان پر مبنی نظام تعلیم جیسے کہ جموں و کشمیر میں رائج ہے، ایسی خصوصیات کو سراہتا ہے۔لڑکیاں عموماً کلاس میں بہتر توجہ دیتی ہیں، کم خلل ڈالتی ہیں اور اساتذہ کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتی ہیں۔ یہ عوامل ان کے تعلیمی نتائج میں مثبت اثر ڈالتے ہیں۔
سماجی محرکات اور امنگوں کی بلندی :
جموں و کشمیر میں تعلیم لڑکیوں کے لیے آزادی، خودمختاری اور معاشرتی تحفظ کا ذریعہ بن چکی ہے۔ خاص طور پر دیہی یا قدامت پسند خاندانوں میں، تعلیم جلد شادی، انحصار یا کم حیثیت سے بچاؤ کا ذریعہ تصور کی جاتی ہے۔ یہی سوچ لڑکیوں میں زیادہ تعلیمی محرک پیدا کرتی ہے۔لڑکیاں تعلیمی کامیابی کو اپنی سماجی شناخت کا ذریعہ سمجھتی ہیں، جب کہ لڑکے اکثر تعلیم کو مستقبل کے کئی راستوں میں سے ایک سمجھتے ہیں، جس کے باعث ان میں تعلیمی سنجیدگی کم ہو جاتی ہے۔
شعبہ جات کا انتخاب اور امتحانی کامیابی :
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکیاں زیادہ تر آرٹس اور کامرس کے شعبے اختیار کرتی ہیں، جن میں کامیابی کا تناسب نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ ان مضامین میں یادداشت، زبان دانی اور منظم اظہار کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے جو عمومی طور پر لڑکیوں کی طاقت ہے۔اس انتخابی حکمتِ عملی نے ان کی کامیابی کی شرح کو مزید بلند کیا ہے۔
ٹیکنالوجی کا استعمال اور خودسیکھنے کی صلاحیت :
ڈیجیٹل تعلیمی پلیٹ فارمز، یوٹیوب ٹیوٹوریلز اور موبائل ایپس نے تعلیمی مواقع کو عام کر دیا ہے۔ مشاہدے سے پتا چلتا ہے کہ لڑکیاں ان وسائل کو تعلیمی مقاصد کے لیے زیادہ استعمال کرتی ہیں، جب کہ لڑکے عموماً تفریح کے لیے۔لڑکیاں آن لائن اور ہائبرڈ لرننگ سسٹمز سے زیادہ ہم آہنگ نظر آتی ہیں، خاص طور پر کووڈ۔19 کے دوران جب روایتی تعلیم متاثر ہوئی۔
ادارہ جاتی تعاون اور صنفی حساس تدریس :
لڑکیوں کے لیے خصوصی کوچنگ، رہنمائی پروگرامز اور حکومتی امداد نے تعلیمی کامیابی کو فروغ دیا ہے۔ اساتذہ بھی عموماً نظم و ضبط، حاضری اور سنجیدگی کی بنیاد پر لڑکیوں کو زیادہ توجہ دیتے ہیں، جو ان کی مزید حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
لڑکوں کی ناکامی ۔شناخت کا بحران:
جہاں لڑکیوں کی کامیابی قابل تعریف ہے، وہیں لڑکوں کی تعلیمی بےرغبتی باعث تشویش ہے۔ کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے لڑکے اکثر سماجی دباؤ، نشےیا جلدی روزگار کی مجبوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مردانگی کے روایتی تصورات بھی انہیں مدد مانگنے، جذباتی اظہار، یا محنت سے روکتے ہیں۔یہ مسائل ذہانت کی کمی سے نہیں بلکہ نفسیاتی اور معاشرتی رکاوٹوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
متوازن اصلاحات کی ضرورت :
یہ کہنا درست نہیں کہ تمام لڑکیاں کامیاب اور تمام لڑکے ناکام ہیں، مگر رجحان واضح ہے۔ پالیسی سازوں کو چاہیے کہ لڑکوں کی ناکامی کی وجوہات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور ان کے لیے مخصوص رہنمائی، تربیت اور ذہنی معاونت کے پروگرام شروع کریں۔
نتیجہ۔ صنفی انصاف پر مبنی تعلیمی ماحول:
لڑکیوں کی کامیابی برسوں کی محنت، پالیسی اصلاحات اور خاندانی اعتماد کا نتیجہ ہے۔ یہ پدرشاہی سوچ کے خلاف ایک خاموش مگر طاقتور اعلان ہے۔ تاہم اب ضرورت ہے کہ لڑکوں کو بھی تعلیمی میدان میں واپس لایا جائے۔ہدف یہ ہونا چاہیے کہ تعلیمی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ صنف کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ محنت، رہنمائی اور یکساں مواقع کی بنیاد پر ہو۔ اب جب کہ تعلیمی میدان لڑکوں کے لیے آسان نہیں رہا، وقت آ گیا ہے کہ ہم تعلیم کو ہر بچے کا حق بنائیں،چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا۔
(مضمون نگار ،محقق اورتعلیم، طرز حکمرانی اور زمین سے متعلق مختلف امور پر لکھتے اور تحقیق کرتے ہیں)
رابطہ۔ 9541104955
[email protected]