نئی دہلی//عدالت عظمیٰ نے جموں کشمیر سے پاکستان ہجرت کرنے والے لوگوں کی طرف سے واپس آنے کیلئے درخواست دینے والے لوگوں کی تعداد سے متعلق تفصیلات طلب کی ہے۔ سپریم کورٹ میں جموں کشمیر بحالی ایکٹ(ری سٹیلمنٹ ایکٹ)1982 کی اعتباریت کو چیلنج کرنے سے متعلق شنوائی کے دوران چیف جسٹس رنجن گگوائے کی سربراہی والے بینچ نے جموں کشمیر حکومت کے وکیل کو ہدایت دی کہ وہ جموں کشمیر سے نقل مکانی کر کے پاکستان گئے شہریوں کی طرف سے واپس آنے کی درخواستوں کی تعداد سے متعلق عدالت عظمیٰ کو آگاہ کریں۔ ریاست کی طرف سے سنیئر وکیل ایڈوکیٹ راکیش دویدی نے چیف جسٹس رنجن گگوائے، جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کے ایم جوزف پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ وہ اس سلسلے میں بااختیار حکام سے ہدایت لیکر مہاجرین اور انکے بچوں،جنہوں نے قانون کے تحت واپس آنے کی درخواستیں دی ہیں، کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کریں گے۔ عدالت عظمیٰ یہ جاننا چاہتی ہے کہ کتنی تعداد میں مہاجرین اور انکے بچوں نے درخواستیں دی ہے،اور آیا کہ یہ درخواستیں مستقل باشندوں نے ہی دی ہے،جنہیں جموں کشمیر آئین کے تحت خصوصی حقوق فراہم کئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ یہ قانون جموں کشمیر کے ان باشندوں کیلئے ہے جنہوں نے1947میں ہجرت کی،اور واپس آنے کی منشا رکھتے ہیں۔ مختصر شنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے معاملے کی پیروی کرنے والے وکلاء سے سوالات کی بوچھاڑ کی۔ دیویدی اور جموں کشمیر کے قائمہ وکیل شعیب عالم نے کہا کہ اس حوالے سے ایک مکتوب روانہ کیا گیا ہے،جس میں درخواست کی گئی ہے کہ اس معاملے کو منسوخ کیا جائے،اور اس کو35اے اوردفعہ370 کے معاملات کے بعد سنا جائے۔ جموں کشمیر ری سٹیلمنٹ ایکٹ پر2001میں عدالت عظمیٰ نے حکم امتناع صادر کیا ہے،جبکہ یہ قانون1947اور1954کے درمیان جموں کشمیر سے پاکستان نقل مکانی کرانے والے مہاجرین کی سر نو بحالی کی منظوری پر غور کرنے کا اختیار دیتی ہے۔جموں کشمیر نیشنل پنتھرس پارٹی اپنے وکیل بھیم سنگھ کی وساطت سے اس بات پر استدلال کر رہی ہے کہ یہ کیس کافی دیر سے عدالت میں زیر التواء ہے اور اب اس کا فیصلہ لیا جانا چاہیے۔عدالت نے16اگست2016کو یہ اشارہ دیا تھا کہ اگر کچھ معاملات میں آئین کی مداخلت کی ضرورت پڑی تو اس کو آئینی بینچ کو منتقل کیا جائے گا۔ عدالت کے ڈویژن بینچ نے2008میں یہ ہدایت دی تھی کہ اس کیس کو آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا جائے،تاہم اسی سال چیف جسٹس نے فیصلہ میں تبدیلی کر کے اس کو سہ رکنی ڈویژن بینچ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دی۔انکا کہنا تھا کہ1947میں پاکستان نقل مکانی کرنے والے شہریوں کو زیرغور لایا جاسکتا ہے،تاہم انکے بچوں کو نہیں،جبکہ پنتھرس پارٹی نے ریاستی اسمبلی کی طرف سے منظور کئے گئے اس قانون کو غیر آئینی اور نا معقول قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ریاست کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔1982میں منظور کئے گئے قانوں کو پنتھرس پارٹی کے ہرش دیو سنگھ ،جو کہ رکن اسمبلی تھے،نے عدالت کے سامنے چیلنج کیا تھا،جس کے بعد گورنر بی کے نہرو نے بھی بل پر دستخط کرنے سے اعتراض کرتے ہوئے اس بل کو واپس اسمبلی روانہ کیا تھا۔اس کے بعد بی جے پی کے اس وقت کے صدر اٹل بہاری واجپائی نے بھی سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں عرضی پیش کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے مداخلت کرنے کی درخواست کی تھی۔