جرسِ ہمالہ
میر شوکت پونچھی
جموں کشمیر کی صبح بارش کی چادر اوڑھے جاگتی ہے۔ گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو ہوا میں تیرتی ہے، مگر یہ وہ مہک نہیں جو کھیتوں کو سیراب کرتی ہے۔ یہ تو ہسپتالوں کے برآمدوں، ڈوبے گھروں کے صحنوں اور ریت بنے آنگنوں سے اٹھتی اداسی کی بو ہے۔ توی، چناب اور بسنتَر اپنے کناروں سے باہر نکلے تو راستوں کو اماوس کی رات کی طرح نگل گئے۔ جھونپڑیوں کے بانس لڑکھڑا رہے ہیں، پل کے ستون کٹی آستینوں کی طرح خالی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کی لینڈ سلائیڈز اور سیلابی لہروں نے درجنوں جانیں چھین لیں۔ حجاج کے راستے پر پھسلن نے دل دہلا دینے والی خبریں چھوڑیں۔ یہ موسم کی شرارت نہیں، موسمیاتی شدت کی وہ گرفت ہے جو ہمالیہ کے دامن میں کہرام مچاتی ہے۔
اس منظر میں ایک قافلہ یونین ہوم منسٹر امیت شاہ کا توی پل پر رُکا ۔ انہوں نے دراڑوں، بہتی مٹی اور ٹوٹی ریلنگ کو دیکھا،سب کچھ ایک کھلی فائل کی طرح۔ چَک منگو کے متاثرین سے ملاقات، دریا کے کناروں کا جائزہ اور پھر وہ لازمی فریم، اونچی میز، کاغذات کی گتھیاں،’’ریویو میٹنگ‘‘ کا بورڈ اور کیمروں کی چمک۔ شاہ نے سکیورٹی فورسز کی خدمات سراہی، مرکز کی امداد کی یقین دہانی کرائی اور پیشگی انتباہی نظام کو مضبوط کرنے کی ہدایت دی۔ الفاظ عزم کی کرچیاں چھڑکتے رہے۔ خبروں نے لکھا،’’مرکز پوری مدد کرے گا، SDRF کے لیے فنڈز، آن گراؤنڈ سروے کے بعد مزید امداد۔’’مگر اس منظر میں ایک تصویر چھائی۔ سامنے شاہ، ایل جئ، ایل او پی افسران، محافظ اور پیچھےذرا اور پیچھےعمر عبداللہ۔‘‘ سوشل میڈیا پر یہ فریم گھنٹی بن کر بجا۔ تبصرے اٹھے، اتفاق یا پروٹوکول کی خاموش سزا؟ کچھ نے اسے’’سیاسی ان مِکسچر‘‘ کہا،وہ محلول جس میں اختیار اور انا کا تناسب کبھی برابر نہیں۔ اخبارات نے نوٹ کیا کہ عمر صاحب پس منظر میں دھندلائے اور تنقید کا بازار گرم ہوا۔
عمر عبداللہ کی’’پچھلی قطار‘‘ سیاست کی کلاس میں ایک سبق ہے۔ کبھی فرنٹ بنچ والے پیچھے لگتے ہیں اور کبھی ایک فلیش میں لیڈر’’بیک رو‘‘ کا مسافر بن جاتا ہے۔ عمر صاحب سے پوچھا گیا،’’آگے کیوں نہیں؟‘‘ جواب ملا،’’ہم جمہور کے خادم ہیں، پیچھے بھی قوم، آگے بھی قوم۔ بس کیمرہ کبھی ضدی ہو جاتا ہے! پچھلی قطار کوئی معمولی جگہ نہیں،یہاں تاریخ بیٹھتی ہے۔ یہاں سے طنز کی سب سے لمبی گونج اٹھتی ہے۔ اگر یہ فوٹو ایڈیٹنگ کا کمال ہے تو واہ رے جمہور! یہاں قیادت’’سوائپ رائٹ‘‘ میں حکومت اور’’سوائپ لیفٹ‘‘ میں اختلاف بن جاتی ہے۔
مگر سوال باقی۔ کیا وعدوں کی رفتار فوٹو کی وائرل تیزی جتنی ہے؟ پل کی دراڑیں پر کرنے، سیلاب روکنے اور وارننگ ٹاور بنانے میں ہیش ٹیگ نہیں، ٹھوس عمل چاہی ہئے۔ مضبوط دیواریں، بہتر ڈرینیج، جنگلات کی بحالی اور مقامی آبادی کو بروقت خبردار کرنا۔ شاہ نے وارننگ سسٹمز پر زور دیا،اگر یہ جملہ عمل بن جائے تو شاید کل کی سرخیوں میں تصویر سے زیادہ نقشہ اہم ہو۔
وادی کے زخم صرف بارش کے نہیں، یہ زمین کا درد ہے، جو کئی دہائیوں سے بے توجہی کا شکار ہے۔ ہمالیہ کے نازک ماحولیاتی نظام کو سمجھنے کی ضرورت کبھی ترجیح نہیں رہی۔ جنگلات کی کٹائی، غیر منصوبہ بند شہری کاری اور ناقص انفراسٹرکچر نے جموں کشمیر کو آفات کا گڑھ بنا دیا ہے۔ رامبن ہو یا ریاسی، ہر سانحہ ایک ہی سبق دہراتا ہے۔ پیشگی تیاری، مقامی وسائل کی مضبوطی اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی حکمت عملی ناگزیر ہے۔
سیاسی فریم سے ہٹ کر حقیقت یہ ہے کہ وادی کے لوگ نہ کیمرے کی چمک مانگتے ہیں، نہ وعدوں کی ریل۔ وہ مانگتے ہیں ایک پل جو نہ ٹوٹے، ایک گھر جو نہ بہے اور ایک نظام جو خطرے سے پہلے آگاہ کرے۔ مرکز کی امداد، SDRF کے فنڈزاور وارننگ سسٹمز کے وعدے تب تک ادھورے ہیں جب تک زمین پر عمل نہ ہو۔ رامبن کی گھاٹیوں میں جب بادل پھٹتا ہے تو وہ کاغذات کی گتھیاں نہیں، بیلچہ اور مضبوط دیوار مانگتا ہے۔
زمین پر اتریں تو رامبن کی گھاٹیوں میں بادل کی گرہ ٹوٹی تو سیلابی ریلے نے چار جانیں اور کئی گھر بہا دئیے۔ رِیاسی کی ایک بستی میں ایک خاندان کی سانسیں ڈوب گئیں۔ ریسکیو ٹیمیں دوڑیں، اسکول بند ہوئے، مواصلات منقطع اور بارش ڈھول کی تھاپ پر بجتی رہی۔ ہمالیہ کی یہ داستان اب حیرت نہیں، ایک مستقل سچ ہے جو ہر سانحے کے نیچے سیاہ لکیروں میں لکھا جاتا ہے۔
شاہ کے دورے کا حساب واضح ہے۔معائنہ، دلجوئی، منصوبہ بندی اور میڈیا کے لیے جملے’’کوئی خاندان پیچھے نہیں رہے گا۔‘‘،’’CAPFs تیار۔‘‘،’’وارننگ سسٹم بہتر کریں۔‘‘ یہ لغت ضروری ہے، مگر ناکافی۔ تباہی کے بعد ہر وعدہ کھوکھلی سڑکوں، کمزور ڈھلوانوں اور ناقص نکاس سے چیلنج ہوتا ہے۔ جموں کشمیر میں سیلاب کو روکنے کے لیے نہ تو پل مضبوط ہیں نہ ہی نکاسی کے نظام قابلِ بھروسہ۔ برساتی نالوں کی صفائی برسوں سے التوا میں ہے اور جنگلات کی کٹائی نے زمین کو مزید کمزور کیا۔ ہر سال وہی کہانی ، بادل پھٹتے ہیں، گھر بہتے ہیں اور وعدوں کی فہرست لمبی ہوتی ہے۔
عمر عبداللہ کی پچھلی قطار پر ہنسی تو آتی ہے، مگر یہ ہنسی تلخ ہے۔ یہ محض ایک تصویر نہیں بلکہ اس سیاسی کھیل کی علامت ہے جو وادی میں دہائیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ جب کیمرہ فریم بناتا ہے تو وہ زمین کی سچائی کو نہیں، بس زاویوں کو پکڑتا ہے۔ عمر صاحب کا طنزیہ جواب’’کیمرہ ضدی ہے‘‘شاید اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ وادی کے مسائل کوئی فوٹو ایڈیٹنگ سے حل نہیں ہوں گے۔
طنز کے پردے ہٹائیں تو ایک گہرا سوال اٹھتا ہے، کیا وادی کے زخموں کا علاج صرف میٹنگ رومز اور سرخیوں میں ڈھونڈا جائے گا؟ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی چیلنج ہے، مگر اس کا سب سے گہرا اثر ہمالیہ جیسے نازک خطوں پر پڑتا ہے۔ جموں و کشمیر میں ہر سال سیلاب اور لینڈ سلائیڈز کی تکرار بتاتی ہے کہ وقتی امداد اور فوٹو سیشنز سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ایک عملی نقطہ نظر یہ مانگتا ہے کہ پیشگی انتباہی نظام کو نہ صرف نصب کیا جائے بلکہ اسے مقامی سطح پر فعال بنایا جائے۔ گاؤں کی سطح پر کمیونٹی ریڈیو، موبائل الرٹس اور تربیت یافتہ رضاکاروں کی ٹیمیں بنائی جائیں۔ نکاسی کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے مقامی بلدیات کو بااختیار بنایا جائے۔ جنگلات کی بحالی کے پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ زمین کی پھسلن روکی جا سکے۔ پل اور سڑکیں بناتے وقت ہمالیہ کی جغرافیائی حساسیت کو مدنظر رکھا جائے۔ یہ سب وعدوں سے زیادہ محنت مانگتا ہے، مگر وہی وادی کو بچا سکتا ہے۔
سیلاب کے دنوں میں سیاست کا ڈریسنگ روم چھوڑ کر ورکشاپ بنائیں۔ بیلچہ، نقشہ، سائرن، اور مقامی لیڈرز کی مشق کے ساتھ۔ اگر اگلی تصویر میں کوئی پچھلی قطار نہ ہو، سب ایک صف میں کھڑے ہوں اور توی کنارے مضبوطی کی نئی لکیر چمکے، تو شاید جموں کشمیر کی صبح واقعی سوندھی مہک سے جاگے۔ فی الحال بارش تھمی نہیں، فریم بدلا نہیںمگر قاری کی نظر بدل سکتی ہے۔عمر عبداللہ کے لیے آخری ادبی مشو رہ ۔ اگلی بار پچھلی قطار ملے تو چھتری اور نوٹ پیڈ ساتھ رکھیں،بارش خبر سے زیادہ برس رہی ہے۔ اگر کیمرہ پیچھے دھکیلے تو زاویہ بدلیں، تاریخ کا بہترین پورٹریٹ کبھی سائیڈ پروفائل میں بنتا ہے۔ اور’’ناراض ٹیچر‘‘ کا جواب؟ پچھلی بنچ سے بھی امتحان جیتا جا سکتا ہے۔
[email protected]