یاسین رشید میر
جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے حالیہ واقعات نے عوامی نمائندگی کے اخلاقی اور سماجی معیار پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عوام نے اپنے نمائندوں کو اعتماد کے ساتھ منتخب کیا تاکہ وہ ان کی بھلائی اور معاشرتی ترقی کے لیے کام کریں، ان کی فلاح و بہبود کا خیال رکھیں اور ریاست کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی سے دلچسپی لیں۔ ان کی یہ ذمہ داری صرف ترقیاتی کاموں اور عوامی ضروریات کی تکمیل تک محدود نہیں، بلکہ وہ معاشرے میں اخلاقی رہنمائی کا بھی ایک اہم فریضہ انجام دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے اولی الامر ہیں۔‘‘ (النساء: 59)۔ یہ آیت ان نمائندوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے جنہیں عوام نے اپنے اجتماعی مفاد کے لیے منتخب کیا ہے۔ ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف لوگوں کی معاشی اور بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھیں بلکہ اپنے کردار اور عمل سے انہیں اخلاقی اور اصولی راہ پر گامزن کریں۔
مگر حالیہ اسمبلی اجلاس میں ہم نے ایک انتہائی افسوسناک منظر دیکھا۔ وہاں ایسے نمائندے موجود تھے جو اپنے مخالفین کی بات سننے اور سمجھنے کی بجائے انہیں خاموش کرنے کے لیے ہاتھا پائی تک پہنچ گئے۔ وہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے، لاتوں اور مکوں سے لڑائی کرنے اور شور شرابے سے ایک دوسرے کی آواز کو دبانے پر اُتر آئے۔ اس طرزِ عمل نے نہ صرف اسمبلی کے تقدس کو پامال کیا بلکہ پورے معاشرے کے سامنے ایک انتہائی منفی مثال بھی قائم کی۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب اسمبلی جیسے مقدس فورم پر ہمارے منتخب نمائندے اس قدر غیر شائستہ رویے کا مظاہرہ کریں، تو اس کا اثر نوجوان نسل اور عام عوام پر کیا پڑے گا؟ ان لوگوں کو دیکھ کر نوجوان یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ اہم مسائل پر بات کرنے یا اختلافِ رائے کو حل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ دلیل اور گفتگو کے بجائے طاقت اور تشدد کا سہارا لیا جائے۔ ایک ایسا مقام جو عوامی مسائل کے حل اور تعمیری گفتگو کے لیے مختص کیا گیا ہے، آج وہاں جسمانی طاقت کا استعمال اور شور و غل کا مظاہرہ ریاستی نظام کو کمزور کر رہا ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسے نمائندے جو اپنی ذاتی انا اور غصے کو کنٹرول نہیں کر سکتے، وہ کس طرح معاشرے کی رہنمائی کریں گے؟ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے کردار اور طرز عمل کا براہ راست اثر پورے معاشرتی ماحول پر پڑتا ہے۔ ان کے رویے سے ریاست میں پھیلنے والی بدامنی اور بداخلاقی جیسے مسائل کو روکنے کی بجائے مزید ہوا ملتی ہے۔ جو اختیارات انہیں عوامی بھلائی کے لیے دئیے گئے ہیں، ان کا درست استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔
جموں و کشمیر کے عوام کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہی ان کے منتخب کردہ نمائندے ہیں جن پر انہوں نے اپنے مستقبل کی امیدیں وابستہ کی تھیں؟ ان نمائندوں کا یہ فرض ہے کہ وہ صبر و تحمل، دانشمندی اور بردباری کا مظاہرہ کریں اور ان بنیادی اصولوں کو اپنائیں جو ایک قابلِ اعتماد قائد کی پہچان ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، ریاست کی مالی و اخلاقی ترقی کے لیے ایک مثال قائم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا ہر عمل عوامی فلاح و بہبود کے اصولوں کے مطابق ہو۔
ایسی اصلاح اور خود احتسابی کے بغیر نہ تو معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریاست کے مسائل کا حل ممکن ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہمارے نمائندے اپنے کردار و عمل کو بلند معیار پر لے جائیں اور عوام کو اعتماد دلائیں کہ ان کے حقوق اور اخلاقی اقدار کی حفاظت ان کے ہاتھ میں محفوظ ہے۔ اسمبلی جیسے ادارے کی حرمت اور اس کا وقار برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک مثبت ورثہ چھوڑا جا سکے اور ریاست جموں و کشمیر صحیح معنوں میں ایک پُرامن، ترقی یافتہ اور اخلاقی اقدار سے مزین معاشرہ بن سکے۔
رابطہ۔9797842030
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔