گورنر اور اُس کی ریاستی انتظامی کونسل، جو عوام کے سامنے کسی جوابدہی سے ماوریٰ زیادہ سے زیادہ ایک عبوری انتظام ہے، کافی عرصہ سے ریاستی عوام کے بیش قیمت اور منفرد ادارے جموں وکشمیر بنک سے متعلق بڑے فیصلے لے رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلے کسی سوچ بچار کے بغیر روا روی کے عالم میں یک طرفہ اور بے قاعدہ طریقے پر لئے گئے ہیں۔زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ گورنر نے قومی ٹیلی ویژن پر اعلان کیا کہ انہوں نے بنک کے چیئرمین کو کچھ امیدواروں کو بھرتی کرنے کی ہدایت دی۔اس بات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کو ایسے معاملات میں بنک ،جوسرکار کی طرف سے ایک تسلیم شدہ کمپنی ہے ،کو ہدایت دینے کاکوئی اختیار نہیں ہے ۔یہ کوئی سرکاری ادارہ جاتی شعبہ نہیں ہے بلکہ یہاں ایک بورڈ موجود ہے ،جو بنک کی پالیسی سازی کے فیصلے لینے کاذمہ دار ہے ۔کل پھر ریاستی انتظامی کونسل نے گورنر کی صدارت میں جموں وکشمیر بنک کے ساتھ ایک پبلک سیکٹر ادارے جیسا سلوک کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ واقعی تباہی کا نسخہ ہے ۔یہ ماسوائے افسر شاہی کے بنک پر قبضہ کرنے اور سیاسی مداخلت کو ادارہ جاتی بنانے کے کچھ نہیں ہے ۔ ایک سادہ سا سوال جو متعلقین کو پوچھا جانا چاہیے کہ کیوں ریاست کے سبھی پبلک سیکٹر ادارے خسارے پر چل رہے ہیں اور بند ہونے کی کگار پر ہیں؟ اگر پبلک سیکٹر کا قالب، جس میں اب جموں وکشمیر بنک کو ڈھالاجارہا ہے، بہتر ہے تو کیوں ایک بھی پبلک سیکٹر ادارہ قد و کاٹھ اور رتبے میں فروغ پاکر فہرست میں شامل نہ ہوسکا؟۔ سبھی پبلک سیکٹر اداروں کے مقابلے میں جموں وکشمیر بنک کی بلا خلل منافع کمانے اور اُسے متعلقین میں تقسیم کرنے کی ایک تاریخ ہے۔یہ ریاست کا ایک کامیاب ترین اورمنافع بخش ادارہ ہے اوررہا بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاستی حکومت نے جو پیسہ جموں و کشمیربنک میں لگایا ہے وہ اب تک کی حکومت کی منافع بخش ترین سرمایہ کاری ہے۔ زیادہ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ حکومتی ملکیت کا واحد کاروباری ادارہ ہے جس میں غیر ملکی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں،داخلی سرمایہ کاروں اور مقامی پرچون فروشوں کا سرمایہ لگا ہے ۔بنک میں مالی سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ ،ریاست کے لوگوں کاجموں وکشمیر بنک کے ساتھ جذباتی لگائو ہے ۔اس کی ناقدری نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اسے تباہ کیاجاسکتا ہے۔ایک مالی ادارہ ہونے کے ناطے جموں وکشمیر بنک کی باضابطہ نگرانی ملک کے دیگر بنکوں کی طرح ریزروبنک آف انڈیا کرتا ہے ۔ا س کے علاوہ ایک سرکاری کمپنی ہونے کی وجہ سے یہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی نگاہ میں بھی ہے ۔ اور ہاں اس کی کارپوریٹ انتظامی باڑی بورڈ آف ڈائریکٹرس پر مبنی ہے ،جس میں ریاستی حکومت،ریزروبنک آف انڈیا کے نمائندوں کے علاوہ پیشہ ور آزادڈائریکٹر ہیں۔اس کے برعکس پبلک سیکٹر اداروں میں کوئی ایسا بورڈ نہیں ہے جس کی مثال دی جاسکتی ۔سبھی پبلک سیکٹراداروں میں ایک جیسا پانچ لوگوں پر مشتمل بورڈہے۔اگر مالک، جو کہ ریاستی حکومت ہے ،کو محسوس ہورہا ہے کہ بنک کے انتظام میں مسائل ابھرے ہیں تو اس کا علاج بہتر طور بورڈ کومضبوط کرنے سے ہوگا ،نہ کہ اس کو مؤثر طور ناکارہ بنانے سے۔گزشتہ دس برس یا اس سے زیادہ عرصے سے ریاستی حکومت نے سیاسی حلقوں سے تعلق رکھنے والے احباب و اقارب اور متعلقین کو بنک کے بورڑ میں شامل کیا ہے، اس کو روکا جانا چاہیے اور ریزروبنک آف انڈیا کی طرف سے ڈائریکٹروں کیلئے لازمی معیار اورقابلیت کو سختی سے من وعن عملایا جانا چاہیے ۔جموں وکشمیر بنک کو ریاستی قانون سازیہ کے تحت لانا ، بینکنگ ریگولیشن ایکٹ1949، جوریاست جموں وکشمیر پر1956سے لاگو ہے اور جس کے تحت کمرشل بنکوں اور بنک کاری نظام کوباضابطہ بنایاجاتا ہے اور انکی نگرانی کی جاتی ہے، کے سراسر منافی ہے۔ اس پر عدالت میں سوال کیا جاسکتا ہے ۔اس حقیقت کے باوجود کہ ریاستی حکومت جموں وکشمیر بنک میں کثیر حصہ دار ہے اور یہ اولین دور کا نجی شعبے کا بنک ہے۔ یہ سرکاری فہرست میں شامل ایک عوامی بنک ہے اور جو کچھ ریاستی انتظامی کونسل نے آج کیا ہے ،دیگر حصہ دار بالخصوص چھوٹے حصہ دار اس کو عدالت میں چیلنج کرسکتے ہیں۔ادارہ جاتی سرمایہ کار خود کو بچانے کی کوشش میں حصص کی صورت میں اپنا سرمایہ فروخت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، جس کا اثر بازار حصص کی قیمتوں پر پڑے گا۔ریاستی انتظامی کونسل کو فوراََ سے پیشتر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے اِسے واپس لینا چاہئے۔