منقسم جموں وکشمیر کی سرحدوں پر ہندوپاک افواج کے مابین گولہ باری کوئی نہیں بات نہیںہے اور دونوںجانب کی سرحدی آبادی اب اس گولہ باری کی عادی بھی ہوچکی ہے جس کے نتیجہ میں اب تک دونوں اطراف سینکڑوں انسانی جانیں ضائع اور کروڑوں کی املاک تباہ ہوچکی ہیں تاہم گزشتہ کچھ عرصہ سے بالعموم اور کل یعنی اتوار کو بالخصوص جس طرح سرحد کی دونوں جانب سےآگ و آہن کی برسات ہوئی اور دونوں جانب معصوموں کا خون بہا، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔
تازہ گولہ باری کے نتیجہ میں انسانی جانوں کےاتلاف کا یہ واقع ایسے وقت پر پیش آیا ہے جب سرحد کی دونوں جانب لوگ کورونا وائرس سےخود کو بچانے کی خاطر اپنے گھروں کے اندر سمٹ کررہ گئے ہیں اور انہیں بیرونی دنیا کی کوئی خبر تک نہیں ہے۔ اتوار کو جب کیرن اور پونچھ و راجوری میں جنگبندی لائن کے علاقوں میں کورونا وائرس کے خوف سے پیدا ہوئی خاموشی کو گولوں کی گھن گرج سے توڑا جارہا تھاتو ان علاقوں میں آبادلوگوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کورونا سے بھاگیںیا اُن کے اوپرگرتے ہوئے گولوں سے ۔ایک طرف پوری دنیا میں کورونا وائرس کے قہر سے بچائو کیلئے سماجی دوریاں بنائے رکھنے پر زور دیا جارہا ہے تو دوسری جانب کل ان سرحدی بستیوں کے لوگ عجب شش و پنج میں تھے کہ وہ کورونا سے بچنے کیلئے دوریاں بنائے رکھیں یا گولہ باری سے بچنے کیلئے ایک دوسرے سے چمٹ کر غاروں میں دُبک جائیں یا پھر اپنے عزیزوں کی خون میں لت پت لاشوں کی آخری رسوم کی ادائیگی کیلئے جمع ہوجائیں۔کہنے اور لکھنے میں یہ کوئی معمولی معاملہ لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک سنگین انسانی المیہ ہے ،جس سے اس وقت سرحدی آباد ی دوچار ہے۔
سرحدی آبادی کیلئے حقیقی معنوں میں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کیونکہ گھروں میں رہنا خطرے سے خالی نہیں رہا ہے اور باہر جمع ہونے کی موجودہ حالات کے حوالے سے جاری شدہ ہدایات کے مطابق اجازت نہیں ۔ سرحد کی بھڑکی ہوئی صورتحال سے سماجی دوریوں کا تصور یہاں بالکل فوت ہوچکا ہے کیونکہ موت کا سایہ اس قدر بھیانک ہے کہ لوگ یا تو اپنے مکان کے کسی ایک کمرے میں سمٹ چکے ہیں یا پھر کسی زیر زمین بنکر میں گائے بکریوں کی طرح ٹھوسے جاچکے ہیں۔میاں بیوی ،بچے اور والدین سب ایک چھوٹے سے تاریک کمرے کے مکین بن چکے ہیں اور یہی کمرہ اب ان کی دنیا بن چکی ہے ۔غور کریں تو انسانی دل اس صورتحال کا تصور کرکے ہی پسیج جاتا ہے لیکن نہ جانے دونوں ممالک کی پالیسیوں پر گزشتہ سات دہائیوںسے غالب ٹکرائو کی روش کو عالم انسانیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں۔ اس صورتحال سے کھٹور دل بھی پسیج جاتے لیکن نہ جانے کیوں انسانیت اور خاص کراس مظلوم سرحدی آبادی کیلئے ذرا بھی ہمدردی کا جذبہ نظر نہیں آتا ۔پوری دنیا میں جب سارے لوگ کورونا کے قہر سے بچنے کے جتن کررہے ہیں توبرصغیر کی دونوں ایٹمی قوتیں ایک دوسرے کو سرحدوںپر زیر کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور اس پنجہ آزمائی کے نتیجہ میںشہری آبادی نشانہ بن جاتی ہے اور اسی سیول آبادی کے خون سے ان کے انتقام کی پیاس بجھ جاتی ہے ۔
جمہوری اور فلاحی ریاستوں کے حاکمین کو اس طرح کی سوچ زیب نہیں دیتی ہے اور انہیں چاہئے کہ وہ لوگوں کو حب الوطنی کا مصنوعی چورن کھلانے کی بجائے ان کے حقیقی مسائل کے حل کیلئے کوششیں کریں۔ہماری سرحدی آبادی قطعی اس سلوک کی مستحق نہیں ہے جس کا انہیں سامنا ہے ۔اگر پنجہ آزمائی کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اس کیلئے کہیں کسی ویرانے میں جنگ کامیدان سجائیں لیکن خدا کیلئے ان بے بسوں اور بے کسوں کو اپنے انتقام کا شکار نہ بنائیں۔کورونا قہر کے حالات میں کم از کم اس طرح کی پنجہ آزمائی سے گریز ہی کریں تو بہتر ہوگالیکن اس آبادی کو بھی اس غیر یقینی صورتحال میں کم ازکم سکون کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے۔
بھلے ہی ٹکرائو کی اس صورتحال ، جو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے، کے بارے میں دونوں جانب سے کیا کیا بیانیئے پیش نہ کئے جائیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سار ے عرصہ میں سرحدی آبادی کو بے بیان قہر کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو کسی بھی بیانئے کی رو سے کبھی بھی درست نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ زندگی کے مجموعی مقصد کو تاخت و تاراج کرکے انسانی جانوں کا اتلاف اور عمر بھر کی محنت و مشقت کے نتیجے میں تیار کردہ جائیدادوں کی تباہی کسی صورت میں انسانیت کوراس نہیں آسکتے۔موجودہ حالات میں جبکہ ساری دنیا میں حیات انسانی کی بقا کیلئے زندگی اور زندگانی کی رفتار پر قدغن لگائی گئی ہیں تو سرحدوں پر موجودہ توپوں کے دہانے بند کیوں نہیں کئے جاسکتے۔
فی الوقت عالمی سطح کے سیاستدان اور دانشور کو رونا کی وبا سے پیدا شدہ صورتحال کو تیسری عالمی جنگ عظیم سے تعبیر کررہے ہیں تو ایسی حیاتیاتی اور طبی جنگ عظیم میں سرحدوں پر توپوں کے دہانے کھولے جائیں تو اس کے لئے ذمہ دار عناصر کی عقل پر افسوس کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ عوام الناس کو قہر الہیٰ کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمت اور حوصلہ عطا کیا جائے اور اس کے لئے انسان انسان کا دفاع کرنے کیلئے سرگرم ہو نہ کہ ایک دوسرے کو ڈھیر کرنےپر آمادہ ۔