۱۹۹۰ء میں مسلح بغاوت کیا اٹھی کہ ہندوستان کے پائوں سے زمین کھسک گئی اور خوش فہم لوگوں کو آزادی تو بس چند ہفتوں کی دوری پر نظر آئی ۔ جہاں ایک طرف اہل کشمیر ہندوستانی قبضہ سے آزادی کیلئے بے حد پُر اعتماد نظر آنے لگے وہاں نئی دلی کے جموں کشمیر کے حوالے سے ہوش و حواس اڑنے لگے۔ راجیو گاندھی جو کل جماعتی وفد کی سربراہی کر رہے تھے نے سرینگر کے اپنے دورے کے دوران دوٹوک الفاظ میں اعتراف شکست کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ یہ تحریک کے آغاز میں عوامی رد عمل ، عسکریت پسندوں کا خلوص ، ساز گار ماحول اورغیر متوقع ہمہ گیر بغاوت کا نتیجہ تھا کہ نئی دلی کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ ملا اور یہاں مقیم فوجیوں اور نیم فوجیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کافی دیر تک یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ آخر اصل ماجرا کیا ہے ۔ اپنی ناک بچانے کے لئے نئی دلی نے کبھی بھوٹان ماڈل تو کبھی آزادی سے ملتے جلتے کچھ اور روڑ میپ کشمیریوں کے سامنے پیش کئے۔ لیکن جیسا کہ ہر انقلاب میں اکثر ہوتاکہ قومیں صحیح وقت پر مناسب فیصلہ نہیں کر پاتی اور غلام قوموں کا تذبذب ان کی سیاہ راتوں کو مذید طول دینے کا باعث بن جاتا ہے، کشمیریوں نے ہر پیشکش کو سننے سے پہلے ہی مسترد کر دیا ۔ بہر حال تحریک مزاحمت کے ابتدائی دو برس کشمیریوں کی مکمل بالادستی پر محیط تھے اور اس کے بعد جب نئی دلی نے آہستہ آہستہ صورتحال کو سنبھالنا اور سمجھنا شروع کیا تو حسب توقع اور حسب عادت نئی دلی کا موقف بھی بدلتا رہا ۔ہر نئے دن کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ شعوری اور غیر شعوری طور سے کشمیری نہ صرف ایک دوسرے پر شک کرنے لگے بلکہ ایک نظر یاتی جنگ نے ہر ایک کو یہ بات ذہن میں تھما دی کہ اس کے ذاتی یا جماعتی نظریہ کے ساتھ اختلافات کرنے والی ہر کوئی ہندوستانی ایجنٹ اور کشمیریوں کا دشمن ہے ۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات ، ہندوستان کے اندر انتہا پسند ہندو طاقتوں کے عروج اور نام نہاد مین اسٹریم جماعتوں کے تحریک مخالف منافقانہ کردار نے آج کی تاریخ میں صورتحال یہاں لا کھڑی کر دی کہ اہل کشمیر اب 35-Aکے برقرار رہنے کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ بات کوئی معنیٰ نہیں رکھتی کہ نئی دلی نے اپنی سازشوں اور ایجنٹوں کے ذریعہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کمزور کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتی ہے اور کشمیریوں کا ہندوستان سے یہ شکایت کرنا کہ اس نے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اپنا مذاق اڑانے سے بھی بد تر ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ نئی دلی کو کشمیریوں سے سب کچھ چھیننے کا بار بار حماقت کرنا اب کی بار شائد الٹا بھی پڑ سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اہل کشمیر اور ان کے سروں پر سوار قیادت اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارہ کرکے اپنا محاسبہ کریں گے تاکہ ان کی ایک اور پیڑی کو کم از کم اپنی منزل کے ساتھ ساتھ مشکلات اور دشواریوں کے بارے میں واضح معلومات ذہن میں ہوں۔ جہاں مین اسٹریم جماعتیں اس الزام میں ہرگز نہیں بچ سکتی کہ انہوں نے ہندوستانی وفاق میں رہتے ہوئے مسئلہ کے حل کی باتیں کرکے اصل مقدمہ کو کمزور کیا اور باہم ست و گریباں ہو کر کانگریس اور BJPکو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا وہاں مزاحمتی قیادت کو بھی یہ بتانا ہوگا کہ کشمیریوں کے اس حال تک پہنچانے میں ان سے کہاں کہاں کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں عوامی مزاحمت معرض وجود میں نہ آتی تو شائد مزاحمتی قیادت متحد نہ ہوتی۔ قیادت کی مجبوریوں سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ روایتی طرز پر تحریک کو چلانے کے بجائے نعم البدل ڈھونڈنے کی کوئی با معنیٰ کوشش کبھی نہیں کی گئی اور نہ ہی کبھی نئی دلی کو کارنر کرنے کیلئے کوئی ایسا مدعا ایسے کھڑا کیا گیا کہ جہاں نئی دلی دلدل میں پھنس کر باہر نکلنے کیلئے کشمیریوں کی کھلی مدد کی محتاج ہوئی ہوتی ۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ کشمیریوںکے پاس اتنی بیش بہا قربانیوں کے بدلے دل بہلانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اور اگر کوئی انہیں خوش فہمی میں مبتلا رکھ کر گمرا ہ کرنا چاہتا ہے تو ایسے لوگ کشمیریوں کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں ۔ نہ صرف اب عوام کی غالب اکثریت کو بھی زبانی جمع خرچ سے آگے نکل کر قیادت کو جواب دہ بنانا ہوگا بلکہ ہر واقعہ کو اس کے میرٹ کے مطابق پرکھنا ہوگا۔ فتویٰ بازیوں سے اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ کشمیری نہیں بلکہ نئی دلی اور اس کے گماشتے ہیں۔ کبھی عسکری قیادت کے متعلق گمراہ کن اور بے بنیاد کردار کشی کی من گھڑت کہانیاں کھڑی کی جار ہی ہیں
تو کبھی کچھ لوگ مختلف صورتوں میں سامنے آ کر تحریک نوازی کے نام پر تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ بہر حال حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے اور تمام منفی پہلوئوں کے باوجود دفعہ 370اور 35-Aکی حمایت کرنا کشمیریوں کی مجبوری بن چکا ہے ۔ قدرت کا کرشمہ اور کشمیریوں کی ستم ظریفی دیکھئے جس ہندوستانی آئین کا نام لینا بھی مزاحمتی قیادت کے نزدیک غداری سے بھی بڑا جرم ہوا کرتا تھا آج حالات کی کروٹ نے اسی آئین کی دفعہ 35-Aکے تحفظ کیلئے مزاحمتی قیادت کو اپنی جانیں تک قربانی کیلئے آمادہ کر لیا ہے اور سارا کشمیر اس کے تحفظ کی قسمیں کھاتا ہے ۔ اس ساری صورتحال کا تباہ کن پہلو یہ ہے کہ جموں خطہ کے لوگ اب بھی ہر معاملے کو جموں بمقابلہ کشمیر کے زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ جیسے جموں خطہ کی ہندو برادری نے یہ قسم کھائی ہے کہ اگر کشمیری رات کو رات کہیں تو اسکا اعتراف کرنا اہل جموں کی خودداری اور بے غیرتی کی توہین ہوگی۔ جموں خطہ میں ویسے بھی ہزاروں غیر ریاستی باشندے مستقل طور ست آباد ہیں اور 35-Aکے ختم ہونے کی صورت میں شیاما پرساد مکھر جی کا خواب پورا ہوتے دیکھ کر کچھ کم عقل لوگ بلا شبہ جشن منائیں گے لیکن بہت جلد انہیں خود بھی اندازہ ہوگا کہ 35-Aکی منسوخی کا نقصان اہل کشمیر کے مقابلہ میں اہل جموں کو ہی زیادہ ہوگا۔ سوال صرف ریاست کی ڈیموگرافی کے تبدیل ہونے کا ہی نہیں ہے بلکہ 35-Aکی منسوخی ریاست کے لوگوں کیلئے بے شمار مسائل کھڑا کرنے کاباعث بنے گی۔ اہل جموں اور لداخ کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ جذبات میں آکر ان کی طرف سے 35-Aکی منسوخی پر خاموشی ان کی آنے والی نسلوں کے مفادات پر کسی کلہاڑی مارنے سے کم بات نہیں ہوگی۔ جہاں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا اہم ہے کہ آخر کشمیریوں کو ہندوستان کے آگے اسی کے آئین کی دفعہ35-Aکے تحفظ کیلئے بھیک مانگنے پر کون کتنا ذمہ دار ہے وہاں یہ بات بھی ذہم نشین رکھنی ہوگی کہ وقت تیزی سے گذر رہا ہے اور الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ کسی بھی طرح سے معاملہ کا حل نہیں ہے۔ میر واعظ مولانا عمر فاروق کی یہ بات بے حد باوزن اور با معنیٰ ہے کہ آئین کی دفعہ 35-Aکی پاسداری حریت قیادت سے زیادہ مین اسٹریم سیاستدانوں کی ہے لیکن بدقسمتی سے حالات ظاہر کر رہے ہیں کہ جہاں محبوبہ مفتی صاحبہ فاروق صاحب کے گھر جا کر کوئی اچھا پیغام دینے میں کامیاب ہوئی تھیں وہاں اس ملاقات کے خوشگوار اثرات چند دنوں کے علاوہ فضا میں قائم نہ رہ سکے جس کی غالب وجہ یہی تھی کہ ان دونوں جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر اور دوسرے پر الزام تراشی کا مکروہ عمل شروع کیا اور انہیں اب بھی معاملے کی حساسیت کا کوئی احساس نہیں ۔ جہاں عام لوگ سپریم کورٹ کی ممکنہ بیجا مداخلت کے خلاف سینہ سپر ہو رہے ہیں وہاں دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی پولیس اور دیگر اداروں کا 35-Aکے متعلق رد عمل کیسا ہوگا کیونکہ ہر بار سرکاری ملازم ہونے کا بہانا کرکے نہ صرف وہ اپنے لوگوں پر عتاب نہیں ڈھا سکتے بلکہ کچھ نہ کچھ اپنی مٹی سے محبت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ بھی نئی دلی کی کھلی ، ناقابل قبول اور شر انگیز جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔