عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر //لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی ہدایت پرمرکزی زیر انتظام جموں و کشمیر میں گلیشیروں کے پگھلنے اور برفانی جھیلوں کے پھٹنے کے ممکنہ خطرات کی نشاندہی کیلئے ایک مانیٹرنگ کمیٹی کی منظوری دی گئی ہے۔سرکردہ ماہرین، سائنسدانوں اور سرکاری افسران پر مشتمل کمیٹی کے ذمہ ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔کمیٹی جموں کشمیر کے کولہائی گلیشیروں میں تیزی سے پگھلنے اور بادل پھٹنے کے امکانات کی نگرانی کرنے کے علاوہ اس طرح کی صورتحال پیش نہ آنے کا جائزہ لے گی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں یہ رپورٹ سامنے آئے تھی کہ جموں کشمیر میں گلیشیربڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ہمالیائی سلسلے میں کئی برفانی جھیل بن گئے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر وادی کشمیر کیلئے بڑے پیمانے پر تباہی لا سکتے ہیں۔عالمی سروے میں کہا گیا ہے کہ پچھلے 50برسوں میں 27فیصد ہمالیائی گلیشیر پگھل چکے ہیں او یہ عمل متواتر طور پر جاری ہے۔کمیٹی متعلقہ محکمے ان کے فیلڈ اسٹڈیز/مشاہدات میں مدد فراہم کرے گے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق، مرکزی علاقے میں گلیشیئر اور برفانی جھیلوں کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینااور کمزور برفانی جھیلوں کی نشاندہی کرنا شامل ہے۔
کمیٹی شناخت شدہ برفانی جھیلوں میں برفانی خطرے کو کم کرنے اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے کردار اور ذمہ داریوں کو کم کرنے کے لیے ایسے مقامات کے لیے مخصوص بہترین تکنیکی اقدامات تجویز کرے گی۔کمیٹی ممکنہ مقامات کی نشاندہی کر کے برفانی جھلیں پھٹنے اور اس سے منسلک خطرات کے مطالعہ اور انتظام کے لیے انسانی وسائل کی تیاری/صلاحیت سازی کے لیے درکار کارروائی تجویز کرے گی۔جموں و کشمیر میں برفانی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے مخصوص اقدامات تجویز کرنا بھی کمیٹی کے کام کاج میں شامل ہے۔ مجوزہ کمیٹی ضرورت پڑنے پر سرکردہ ماہرین/تنظیموں سے بھی مشورہ کر سکتی ہے۔متعلقہ تکنیکی معیارات، ضوابط اور بہترین طریقوں کی تعمیل کو یقینی بنائے گی۔کمیٹی ڈیزاسٹر منیجمنٹ ریلیف بحالی اور تعمیر نو کے محکمے کے ذریعہ خدمات انجام دے گی۔ پرنسپل سیکریٹری، محکمہ داخلہ کمیٹی کے چیئرمین ہونگے۔اس میںڈائریکٹر ایکولوجی، ماحولیات اور ریموٹ سینسنگ،پروفیسرشکیل اے رامشو، وائس چانسلر اسلامی یونیورسٹی،سیکرٹری اور ڈائریکٹر فنانس ڈیزاسٹر مینجمنٹ،ڈاکٹر مختار احمد، ڈائریکٹرمحکمہ موسمیات، جموں اورکشمیر یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سربراہان،ڈاکٹر زبیر علی، سائنسدان،آفات سماوی کے سینئرکنسلٹنٹ ڈاکٹر پیوش گورو اور وسیم شفیع ڈار جیسے اہم ماہرین شامل ہونگے۔متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کمیٹی کے تمام اجلاسوں میں مستقل طور پر مدعو ہوں گے۔ چیئرپرسن کمیٹی کے لیے مطلوبہ تکنیکی اور بین الضابطہ معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی بھی رکن (ممبروں)کا انتخاب کر سکتا ہے۔کمیٹی کے اراکین کو جو سہولتیں فراہم کی جائیں گی وہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2005 کے سیکشن 21(3) کے تحت ہوں گی۔ خیال رہے کہ کشمیر عظمیٰ نے 24جنوری کو ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں جموں وکشمیر کے حسن کو نگل رہی گلوبل وارمنگ کو طویل مدتی مسئلہ قرار دیتے ہوئے ماہرین نے خبردار کیا کہ سرکار نے ہوش کے ناخن نہ لئے، تو مستقبل میں اس کے سنگین نتایج بھگتنے ہوں گے ۔ماہرین کا کہنا تھا کہ جس طرح ندی نالوں اور دیگر آبی زخائر میں پانی کی سطح کم ہوئی ہے اور گلیشیرو ںکے بھی مزید سکڑنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں ، اس کا امکان پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا، کہ اسکے برے اثرات مرتب ہونگے اور اب اسی قسم کی صورتحال آہستہ آہستہ پیدا ہورہی ہے۔ لیکن ماہرین کے ریسرچ اور انکی تجاویز پر کوئی بھی توجہ نہیں دی گئی ہے اور نہ مستقبل کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے ۔ وادی میں ندی نالے اور چشمے سوکھ گئے ہیں، متعدد علاقوں میں پانی نہیں، یہاں پانی زخیرہ کرنے کا کوئی نظام نہیںاور نہ سرکار کے پاس ایسے کوئی اعداد وشمار موجود ہیں کہ زمین کے نیچے سے ہم کتنا پانی حاصل کر سکتے ہیں ۔ڈاکٹرشکیل رومشو کی سربراہی میں ڈاکٹرخالد عمرمرتضیٰ اور دیگر سائنسدانوں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں اس بات کا انکشاف کیاگیاتھا کہ ایشیاء کے سب سے بڑا گلیشیئرکولہائی میں ہر سال0.98میٹر کی کمی آتی ہے جبکہ ہوکسر گلیشیئر بھی ہر سال 0.93میٹر سکڑ جاتا ہے ۔ان گلیشیئروں کی ہیت جاننے والے ایک ماہر سائنسدان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاتھا کہ سال 2013سے لگاتار ہم ان گلیشیئروں پر تحقیق کیلئے جاتے ہیں اور ہم نے یہ پایا ہے کہ یہ گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور ان میں کمی آنا مستقبل کیلئے انتہائی پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے۔2020 میںبھی شکیل رومشو اور ان کی تحقیقی ٹیم کی جانب سے خطے میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق سے پتہ چلا تھاکہ ہمالیائی علاقے میں 1,200سے زیادہ گلیشیرز میںسال 2000اور 2012کے درمیان اوسطاً 35سینٹی میٹر کی سالانہ کمی دیکھی گئی ۔ یہ تحقیق جموں،کشمیر اور لداخ کے خطوں میں کی گئی، جس میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے اس پار کے علاقے بھی تمام 12,243 گلیشیروں کی موٹائی کا مطالعہ کیا گیاتھا۔اس تحقیق میں یہ پتہ چلا تھا کہ ہمالیائی خطے کے پیر پنجال سلسلے میں گلیشیرفی سال ایک میٹر سے زیادہ پگھل رہے ہیں ، جبکہ قراقرم سلسلے میں فی سال 10سنٹی میٹر گلیشیرنسبتاً کم رفتار سے پگھل رہے ہیں۔