اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اونتی پورہ کے پہلے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے لیفٹنٹ گورنر منوج نے ہیومن کیپٹل اور انڈسٹری کی ضروریات کے مابین پائے جانے والے فرق کو ختم کرنے کیلئے کی تعلیم پر زور دیا۔لیفٹیننٹ گورنر نے نتائج پر مبنی تعلیم کے ذریعہ یونیورسٹی کی سطح پر جدت کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مستقبل میں سائنس اور انتظامی اداروں ، تحقیقی اداروں ، ٹیکنالوجی فرموں ، تکنیکی خدمات کے نیٹ ورک کو بھی اس میں شامل کیا جاسکے۔دراصل لیفٹیننٹ گورنر گزشتہ کچھ عرصہ سے مسلسل جموںوکشمیر میں صنعتی شعبہ کی حوصلہ افزائی کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور وہ تعلیم کے شعبہ کو بھی کچھ ایسی لائنوںپر استوار کرنا چاہتے ہیں جہاں سے ہمیں صنعتی سیکٹر کیلئے پیشہ ور اور ہنر مند انسانی وسائل میسر رہ سکیںکیونکہ جب صنعتی سیکٹر کو پیشہ ور اور ہنر مند انسانی وسائل دستیاب ہونگے تو صنعتوں کو پنپنے میں زیادہ دیر نہیں لگ سکتی ہے۔
جموںوکشمیر میں صنعتی سیکٹر کو فروغ دینے کیلئے مسلسل ایک کے بعد ایک سہولت حکومت کی جانب سے فراہم کی جارہی ہے ۔پہلے مرکز کے ذریعہ صنعتی شعبے میں صنعتی نمو ، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کیلئے 28400 کروڑ روپے مالیت کے انڈسٹریل ڈیولپمنٹ پیکیج2021کا اعلان کیاگیا جس کا مقصدمرکزی انتظام علاقے صنعتی سیکٹر کو فروغ دیکر ساڑھے4 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنا ہے۔اس پالیسی کے تحت اب صنعتی سیکٹر کو بلاک سطح تک توسیع دی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ جموںوکشمیر کے دیہات میں بھی صنعتوں کا جال بچھ جائے۔شاید اسی مقصد کیلئے محکمہ صنعت و حرفت مسلسل لینڈ بینک کو توسیع دے رہا ہے اور صنعتی بستیوں کے قیام اور پرانی بستیوں کو توسیع دینے کیلئے حکومت مذکورہ محکمہ کو48ہزار کنال اراضی منتقل کر نے کا منصوبہ رکھتی ہے جس میں سے اب تک 24ہزار کنال اراضی منتقل کی جاچکی ہے ۔منتقل شدہ 24ہزار کنال میں سے16ہزار جموں جبکہ8ہزار کنال کشمیر صوبہ سے ہیں۔محکمہ کا کہنا ہے کہ نجی سیکٹر میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے صحت ،تعلیم ،صنعت اور دیگر شعبوں میںمقامی و غیر مقامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور منصوبہ کے تحت حکومت کی کوشش رہے گی کہ زیادہ سے زیادہ صنعتی یونٹ قائم ہوں تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت کو فروغ دیاجاسکے ۔
اس کے بعد لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں 22جنوری کو منعقدہ انتظامی کونسل کی میٹنگ میں جموں اینڈ کشمیر انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی 2021-30 کو منظوری دی گئی جس کے تحت جموں اور کشمیر میں یکساں صنعتی ترقی کو فروغ دینے کیلئے ایک منظم صنعتی لینڈ بنک کے قیام کو بھی منظوری ملی۔ نئی پالیسی کے تحت صنعتی علاقوں کیلئے مختلف معاملات کو مد ِ نظر رکھ کر بلاک اور میونسپل سطح پر زون مقرر کئے جائیں گے ۔ پالیسی کے تحت 30 دن کے اندر صنعتوں کیلئے اراضی کی الاٹمنٹ سے متعلق درخواستوں کی جانچ پڑتال اور اُن کا جائزہ لینے کیلئے صوبائی سطح کی پروجیکٹ اپرائیزل اور ایولویشن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی ۔ چوٹی کی سطح کی لینڈ الاٹمنٹ کمیٹی ، ہائی لیول لینڈ الاٹمنٹ کمیٹی اور صوبائی سطح کی لینڈ الاٹمنٹ کمیٹی 45 دنوں کے اندربالترتیب200 کروڑ ، 50 سے 200 کروڑ اور 50 کروڑ روپے کی مالیت کے پروجیکٹوں کیلئے دی گئی درخواستوں کے حق میں اراضی کی الاٹمنٹ کا فیصلہ کرے گی۔ پالیسی کے تحت اراضی سرمایہ کار کوپہلے مرحلے میں40 سال کیلئے لیز پر دی جائے گی جس میں 99 سال کی توسیع بھی کی جا سکتی ہیں۔
اس کے بعد14فروری کو انتظامی کونسل نے ایک اور فیصلہ میں جموںوکشمیر میں نئے صنعتی یونٹوں کے قیام کی راہ ہموار کرتے ہوئے نئے صنعتی یونٹوں کے قیام کیلئے درکار کم از کم پندرہ این او سیز کی شرط ختم کردی اور سنگل ونڈو سسٹم متعارف کرکے کام کا طریقہ اس قدر آسان بنادیا گیا کہ اب کوئی بھی یہاں اپنا کارخانہ لگا سکتا ہے اور اُس کیلئے اُس کو مختلف محکموں سے این او سی حاصل کرنے کے تکلیف دہ مراحل سے گزرنا نہیں پڑے گا۔
یہ تمام فیصلہ جات صحیح سمت میں لئے گئے فیصلے لگ رہے ہیں اور ان سے یہی تاثر ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ ارباب بست و کشاد کو جموںوکشمیر کے بے روزگار نوجوانوں کی فکر دامن گیر ہے اور حکمران جموںوکشمیر میں صنعتوں کا جال بچھانا چاہتے ہیں تاکہ اس خطہ کو بھی صنعتی انقلاب کے ثمرات مل سکیںتاہم ماضی کے تجربات کچھ اچھے نہیں ہیں۔نئی صنعتی بستیوں کا قیام احسن ہے اور یقینی طو ر پر زیادہ سے زیادہ صنعتی بستیاں قائم ہونی چاہئیں تاکہ آمدن کے ذرائع بڑھ سکیں تاہم اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ ہماری پہلے سے موجود صنعتی بستیوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے اور ان صنعتی بستیوں میں کام کررہے بیشتر صنعتکار سرکار کی عدم توجہی کا رونا رو رہے ہیں۔
بلاشبہ نئی صنعتوںکے قیام کیلئے سازگار ماحول کا قیام لازمی ہے اور حکومت اس ضمن میں مثبت اقدامات کررہی ہے تاہم پہلے سے موجودہ صنعتی یونٹ ہولڈر وں کی پریشانیوںکو بھی حل کرنا لازمی ہے ۔جب موجودہ صنعت کاروں کا حوصلہ بڑھے گا تو اس سے نئے صنعتکاروں کا اعتماد بڑھنا یقینی ہے اور یوں مسابقت کی ایک ایسی متوازن فضاء بھی قائم ہوسکتی ہے جہاں موجودہ اور نئے آنے والے صنعتکارباہم مل کر کام کرسکتے ہیں تاہم اس عمل میںمقامی سرمایہ کاری کو ہی پہلی ترجیح دی جائے تاکہ معیشت کا پہیہ مقامی طور ہی گھومتا رہے جس سے مقامی معیشت کوبھی سہارا ملے گا ۔