احمد ایاز
جموں کی طرف دربار مو کے ممکنہ احیاء کے اعلان نے ایک پرانے مباحثے کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے — کیا یہ ششماہی روایت واقعی ایک انتظامی ضرورت ہے یا محض نوآبادیاتی دور کی یادگار جو جذباتی وابستگی پر قائم ہے؟کبھی یہ روایت جموں و کشمیر کے مابین اتحاد و ہم آہنگی کی علامت سمجھی جاتی تھی، مگر آج کے ڈیجیٹل دور میں اس کی افادیت، لاگت اور منطق پر سنجیدہ سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
تاریخی پس منظر۔ایک انتظامی تدبیر سے شاہانہ روایت تک
انیسویں صدی کے اواخر میں ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں دربار مو کی بنیاد رکھی گئی۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ اور بعد ازاں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اسے سرکاری نظام کا باقاعدہ حصہ بنایا تاکہ کشمیر اور جموں کے درمیان انتظامی تسلسل اور ہم آہنگی برقرار رہ سکے۔اس وقت موسمی حالات اور جغرافیائی رکاوٹیں بڑی رکاوٹ بنتی تھیں۔ اس لیے طے پایا کہ:
گرمیوں میں دربار (یعنی حکومت) سرینگر منتقل ہوگا۔سردیوں میں دربار جموں واپس آئے گا۔یہ انتظامی تسلسل اور برابری کی علامت تھی، مگر وقت کے ساتھ یہ نظام شاہانہ رسم میں بدل گیا۔ آزادی کے بعد بھی اسے علاقائی توازن کی علامت سمجھ کر برقرار رکھا گیا، لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اس کی عملی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔
آزادی کے بعد ارتقاء۔توازن سے بیوروکریسی تک : 1947 کے بعد مختلف حکومتوں نے اس روایت کو ’’دو خطوں کے درمیان مساوات‘‘ کے جواز کے ساتھ جاری رکھا۔ بظاہر مقصد یہ تھا کہ دونوں خطوں کے عوام کو حکومت تک رسائی حاصل رہے، مگر حقیقت میں یہ روایت ایک بھاری اور مہنگی بیوروکریٹک مشق بن گئی۔ہزاروں ملازمین، سینکڑوں ٹرک، اور کروڑوں روپے کے اخراجات — صرف اس لیے کہ دفاتر، فائلیں اور اہلکار ہر چھ ماہ بعد ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوں۔جبکہ آج، جب مواصلاتی سہولیات، سڑکیں اور ڈیجیٹل نظام بےحد ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، یہ روایت محض روایتی ضد دکھائی دیتی ہے۔
اقتصادی اور انتظامی لاگت : دربار مو اب ایک وسیع اور مہنگا عمل بن چکا ہے۔ ہر سال تقریباً 200 سے 250 کروڑ روپے اس نقل و حرکت پر خرچ ہوتے ہیں۔یہ اخراجات درج ذیل پہلوؤں میں تقسیم ہوتے ہیں:
�سکیورٹی قافلوں اور نقل و حمل کی تیاری�ہزاروں ملازمین کے لیے عارضی رہائش�دونوں شہروں میں دفاتر اور مہمان خانوں کی دیکھ بھال�ششماہی’’افتتاحی‘‘ تقاریب کا انعقاد۔اس عمل کے دوران کئی ہفتوں تک حکومتی مشینری سست پڑ جاتی ہے، فائلوں کی نقل رک جاتی ہے، فیصلے مؤخر ہوتے ہیں اور عوامی خدمات متاثر ہوتی ہیں۔
یوں جو نظام کبھی انتظامی ضرورت تھا، آج بدانتظامی اور فضول خرچی کی علامت بن چکا ہے۔
ڈیجیٹل انقلاب ۔فائلوں سے فائبر آپٹکس تک :ڈیجیٹل گورننس نے حکمرانی کا نقشہ بدل دیا ہے۔ اب فائلیں ’’ای آفس‘‘ نظام کے ذریعے گردش کرتی ہیں، میٹنگز ویڈیو کانفرنسنگ سے ہوتی ہیں اور شہری شکایات آن لائن درج کی جاتی ہیں۔ایک سینئر افسر کے بقول:’’اب ہم فائلیں نہیں منتقل کرتے، صرف ہارڈ ڈرائیوز منتقل کرتے ہیں۔‘‘ایسے ماحول میں جب فیصلہ سازی ایک کلک پر ممکن ہے، دفاتر کا جسمانی طور پر ایک شہر سے دوسرے شہر جانا محض غیر منطقی اور فرسودہ دکھائی دیتا ہے۔
عوامی رابطہ یا محض علامتی عمل؟ : دربار مو کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اس روایت سے حکومت عوام کے قریب آتی ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بیشتر عوامی شکایات ضلع یا آن لائن سطح پر حل ہو سکتی ہیں، اور وزراء شاذ و نادر ہی سیکریٹریٹ میں عوامی ملاقاتیں کرتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ جب دربار جموں میں ہوتا ہے تو کشمیر کے عوام دوری محسوس کرتے ہیں، اور جب سرینگر میں ہوتا ہے تو جموں کے شہری محرومی کی شکایت کرتے ہیں۔
جموں کی معیشت ۔ایک کمزور جواز :ماضی میں جموں کے کاروباری طبقے نے دربار مو کی حمایت اس امید پر کی کہ سردیوں میں مقامی معیشت کو فائدہ ہوگا۔مگر اب زیادہ تر ملازمین سرکاری رہائش میں مقیم ہوتے ہیں، اخراجات کے لیے الاؤنس لیتے ہیں مگر مقامی بازار میں زیادہ خرچ نہیں کرتے۔سول سیکرٹریٹ میں عوامی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے، اور معاشی سرگرمی کے وہ مواقع بھی اب باقی نہیں رہے جو ماضی میں ممکن تھے۔یوں، دربار مو کے معاشی فوائد اب محض ایک خوش فہمی بن کر رہ گئے ہیں۔
سیاسی رنگ اور علامتی پہلو : 2019 کے بعد جب جموں و کشمیر میں گورنر راج اور بعد ازاں لیفٹیننٹ گورنر نظام نافذ ہوا، تو دربار مو معطل کر دیا گیا۔حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ اس سے غیر ضروری اخراجات بچیں گے اور نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے گا۔تاہم اس فیصلے کا ایک سیاسی پہلو بھی تھا — جب منتخب حکومت ہی موجود نہیں، تو “دربار” کے نام پر کسی علامتی نقل و حرکت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔یوں، دربار مو کی معطلی یا بحالی زیادہ تر سیاسی حالات کی عکاسی کرتی ہے، انتظامی تقاضوں کی نہیں۔
ماحولیاتی پہلو :دربار مو کا ایک کم نظر آنے والا مگر اہم پہلو ماحولیاتی نقصان ہے۔ہزاروں فائلوں، گاڑیوں، پیکنگ میٹریل، اور ایندھن کے استعمال سے کاربن اخراج میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔دنیا بھر میں حکومتیں گرین پالیسیوں کی طرف جا رہی ہیں، جبکہ دربار مو اس کے برعکس، ایک غیر ماحول دوست عمل ہے۔
عوامی تاثر۔روایت یا بوجھ؟: عوامی رائے منقسم ہے۔ جموں کے کچھ لوگ اسے اپنی شمولیت کی علامت سمجھتے ہیں، جبکہ وادی کے بیشتر لوگ اسے نوآبادیاتی باقیات قرار دیتے ہیں۔نئی نسل میں ایک بڑھتا ہوا احساس پایا جاتا ہے کہ یہ روایت اپنی افادیت کھو چکی ہے اور اب اس کا کردار محض علامتی رہ گیا ہے، حقیقی نہیں۔
اختتامیہ :دربار مو، جو کبھی جغرافیائی اور موسمی مجبوریوں کا نتیجہ تھا، آج ایک رسمی اور غیر ضروری روایت بن چکا ہے۔ڈیجیٹل گورننس، جدید رابطوں اور ماحولیات کے تقاضوں کے اس دور میں اس روایت کا احیاء ترقی نہیں بلکہ ماضی پرستی کی علامت ہوگا — روایت کو منطق پر فوقیت دینا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ماضی کی رسومات کے اسیر رہیں گے یا جدید تقاضوں کے مطابق ایک مؤثر، شفاف اور جدید طرزِ حکمرانی کی طرف بڑھیں گے؟وقت کا تقاضا یہی ہے کہ روایت نہیں، کارکردگی کو معیارِ حکمرانی بنایا جائے۔
[email protected]