حسیب درابو
اگر وزیر اعلی کے طور پر، عمر عبداللہ جموں وکشمیر یونین ٹریٹری ٹیم کے نائب کپتان ہیں، تو وزیر خزانہ کے طور پر وہ 12ویں آدمی ہیں۔اُنہیں دو انتظامی ضروریات کی رکاوٹوںکا سامنا کرنا ہوگا جن سے جموں و کشمیر کے سابق وزرائے خزانہ نامانوس تھے۔ سب سے پہلے، انہیں’’پیشگی اجازت‘‘ کی ضرورت ہوگی ۔ قانون سازی کی تجاویز کیلئےلیفٹیننٹ گورنر کی پیشگی منظوری جس میں سٹیٹ لسٹ کے ساتھ ساتھ کنکرنٹ لسٹ میں آنے والے بل یا ترامیم بھی شامل ہیں۔
دوم، وزیر خزانہ اس بات کے پابند ہیںکہ وہ فنانس یا مالیاتی بل پیش کرنے سے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کی ’’سفارش‘‘ طلب کریں جس میں ’’لی گئی یا اٹھائی جانے والی مالی ذمہ داریوں کی وضاحت کی گئی ہو جو یوٹی کے کنسالیڈیٹڈ فنڈ کو متاثر کرتی ہوں‘‘۔ نیز’’کسی بھی ٹیکس کے نفاذ، خاتمے، معافی، تبدیلی یا انضباط” میں تجویز کردہ کسی بھی تبدیلی کے لئے بھی پیشگی اجازت لازمی ہے‘‘۔
چونکہ فنانس یا مالیاتی بل بجٹ کا نچوڑ ہے، اس کا مؤثر طور پر مطلب یہ ہے کہ ایل جی کو بجٹ تجاویز سے پہلے اور مقننہ سے منظور ہونے کے بعد منظوری دینی ہوگی۔ تب ہی بجٹ کی تجاویز پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ اس لئے بجٹ یا اس کے کسی حصے کی کوئی قانون سازی کی ضمانت نہیں ہے۔ اسمبلی کے پاس ہونے کے بعد بھی لیفٹیننٹ گورنراپنی منظوری دے سکتا ہے یا روک سکتا ہے۔ یا اسے صدر کے غور کیلئے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ وہ اسے رولز آف بزنس کے مطابق دوبارہ غور کیلئے اسمبلی کو بھی بھیج سکتے ہیں۔
اختیارات پر اس طرح کی سخت پابندیوں کے ساتھ، یہ واقعی دلچسپ ہے کہ وزیر اعلیٰ ’’عوام کے ذریعہ، عوام کے لئے بجٹ ‘‘ پیش کرنے کا وعدہ کریں۔جیسا کہ یہ لگتا ہے،یہ بہت پرکشش ہے، لیکن اصل میں یہ دقیانوسی ہونے کے ساتھ ساتھ محض خیالی بھی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی نئی قانون سازی کی ضرورت نہ بھی ہو، جموں و کشمیر کا بجٹ تاریخی طور پر مالی لحاظ سے بہت محدود رہا ہے۔
بجٹ کا حساب یا لیکھا جوکھا بہت آسان ہے۔ جموں و کشمیر حکومت فی الحال تقریباً 1,00,000کروڑ روپے سالانہ کماتی ہے۔ یہ اپنے حاضر سروس ملازمین کو ادا کرنے کیلئے 30,000کروڑ روپے خرچ کرتی ہے جن کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے۔ مزید 15,000کروڑ روپے وہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو پنشن کے طور پر ادا کرتی ہے۔ ان کی دیگر ضروریات،جن میںدفتر، رہائش، کار، اور دیگر اخراجات وغیرہ شامل ہیں، کو پورا کرنے پر 10,000کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
اپنی دیکھ بھال پر 65,000کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعدحکومت کوماضی میں لئے گئے قرضہ پر سود اور اس کی واپس ادائیگی کیلئے22ہزارکروڑ روپے ادا کرنے ہوں گے۔
لہٰذا، تنخواہوں، پنشن اور قرض کے مد، جسے بجٹ کی زبان میں بنیادی اخراجات کہا جاتا ہے، حکومت ہر سال 77,000کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، حکومت جو کماتی ہے اس کا تقریباً 75سے 80فیصد خود پر خرچ کرتی ہے۔
بجٹ کا بقیہ 20فیصد ’’عوام کےلئے‘‘ دستیاب ہے جس کا آدھا حصہ بجلی کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے۔ اس سے حکومت کے پاس بنیادی ڈھانچے جیسے سڑکوں، پلوں، ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں وغیرہ کی شکل میں ترقیاتی کاموں کےلئے 10000کروڑ روپے رہ جاتے ہیں۔ عمومی طور پر، ایک حکومت 25سے 33 فیصد اپنے اوپر اور باقی ترقی پر خرچ کرتی ہے۔
لہٰذا، وزیر خزانہ کے پاس ترقیاتی اخراجات کے لئے زیادہ سے زیادہ بجٹ کے 10فیصد پرکنٹرول ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی محدود ہے کیونکہ بہت ساری مختص مالی اعانت کے ذرائع سے منسلک ہے۔ اس کی مالی اعانت مختص ادارہ جاتی قرضوں جیسے پاور یا ہاؤسنگ کارپوریشنز سے حاصل کرنی ہے۔ بات یہ ہے کہ پالیسی میں تبدیلی اور تدبیر کرنے کےلئے شاید ہی کوئی گنجائش ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ بجٹ صرف مختص کی طرف بڑھ سکتا ہے، یہ پالیسی کی طرف اختراعی ہونا ضروری بناتا ہے۔
ایک صنعتی پالیسی بنانے اور سیاحوں کو جمع کرنے کےلئے ریاستوں کا دورہ کرنے کی بات کرنا، جیسا کہ عمر عبداللہ نے اپنے بی بی سی کے ٹاک شو’’ ہارڈ ٹاک ود سٹیفن سکر ‘‘میں کیا تھا، ناقابل تصور ہے۔ جموں و کشمیر کو ایک ممکنہ ’’ہندوستان کے صنعتی مرکز ‘‘ کے طور پر پیش کرنا،جیسا کہ سری نگر میں CII سربراہی اجلاس میں کہا گیا تھا، ایک غلط ترقیاتی حکمت عملی ہے۔اگر ہم ایک لمحے کے لئے یہ مان کر بھی چلیںکہ جموں و کشمیر ہندوستان کا صنعتی مرکز بن سکتا ہے، توکیا ایسا ہونا چاہیے؟ ۔مینوفیکچرنگ کیپٹل کشمیر میں لانے، انڈسٹریل اسٹیٹس بنانے، فزیکل اثاثے تعمیر کرنے کی حکمت عملی ناقص ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کس طرف جا رہی ہے،یہ پالیسی اُس کے ساتھ بھی مطابقت نہیں رکھتی ہے۔آج کی معاشی ترقی اور کاروباری خوشحالی کے محرکات جسمانی اثاثے نہیں بلکہ علم کی مصنوعات ہیں۔ قدر پیداوار میں نہیں تقسیم میں بنتی ہے۔ دولت ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر بنائی جا رہی ہے، تعمیراتی جگہوں پر نہیں۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں ماحولیات، سماجی اور گورننس سرمایہ کاری پر حکمرانی کرتے ہیں، جہاں کاربن کریڈٹ مارکیٹ سٹاک مارکیٹوں سے بہتر منافع پیش کر رہا ہے، کشمیر کو مینوفیکچرنگ کارپوریٹس کے دور میں کیوں واپس دھکیلاجا رہا ہے۔ فن ٹیک اور ریج ٹیک کے دور میں صنعتی یونٹس پر مراعات رکھی جارہی ہیں؟ ۔خاص طور پر، جب جموں و کشمیر کی معیشت نئے دور کے پائیدار معیشت کے نمونے کےلئے ’’اپنی مرضی کے مطابق ‘‘ہے۔
سرکاری مالیات کی حالت کے برعکس، جموں و کشمیر ایک لچکدار دیہی معیشت ہے جو سالانہ 2.5 ٹریلین روپے کی آمدنی پیدا کرتی ہے۔ اس آمدنی کا دو تہائی سے زیادہ حصہ مساوی رزق دینے والے زرعی شعبہ ،متحرک تجارتی فارم کی معیشت، ایک متنوع فنکارانہ ماحولیاتی نظام اور فروغ پزیر تجارتی شعبہ سے آتا ہے۔ پہلے ایک کو چھوڑ کر یہ سب ایکسپورٹ موافق ہیں۔
دستکاری کی معیشت میںبے ترتیب شہری مجمعے ہیں جو دیہی کاریگروں کے ساتھ مل کر سیاحت سے متعلق خوردہ تجارت کے ساتھ ساتھ وادی سے ملکی اور بین الاقوامی برآمدات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ معیشت کا ایک اہم محرک آج بھی عوامی اخراجات ہی ہیں۔مستقبل پر مرکوز اور قدر بڑھانے والے شعبوں میں قومی اور عالمی نیٹ ورک کا حصہ بننے کے بجائے، کیوں کوئی صنعتی پالیسی بنانے، مراعات دینے اور ریونیو کو چھوڑ کر معیشت کے ڈھانچے کو صنعتی معیشت میں تبدیل کرنے کا انتخاب کرے؟
ایک حالیہ کالم ’’دو سمجھوتوں کی کہانی‘‘میں، میں نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ کس طرح ایک باغبانی انٹرپرائز کو مینوفیکچرنگ فیکٹری سے زیادہ قدر حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ پائیدار ہے۔ سرمایہ کاری کی منڈی پائیدار شعبوں کو فوقیت دیتی ہے اور آلودگی پھیلانے والے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔
اس طرح، ایک اور ’’نئی‘‘ صنعتی پالیسی سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ میکرو اکنامک نمو کی حکمت عملی ہے۔ جس طریقے سے جموں و کشمیر کی اقتصادی ترقی کو 70برسوں کے بیشتر حصے میں جاری رکھا گیا ہے اور جس طریقے سے اسے مقامی تعلق داروںکے مفاد میں کیا جانا چاہیے، اس میں ایک سنجیدہ اور اہم فرق ہے۔ یہ منتخب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی تعلق داروں کو معیشت کا بنیادی محرک بنائے۔
جب عمر عبداللہ 7مارچ کو بجٹ پیش کرنے کے لئے کھڑے ہونگے تو انہیں بجٹ کے اعداد کے بارے میں کم بات کرنی چاہئے جو زیادہ تر پہلے سے طے شدہ ہیں۔ اس کے بجائے، اُنہیں ایسے اقدامات کے ساتھ ترقی کی حکمت عملی کے لئے گورننس کو بیان کرنا چاہئے جو یوٹی حکومت کی قانون سازی کی اہلیت کی جانچ، جھکاؤ، اور حدوں کو بڑھاتی ہو۔ ڈرامائی تصادم کی طرف دھکیلنا جو کہ خبر کے قابل ہیں اور اپنی طرف توجہ دلانا اپوزیشن کا کام ہے۔ جب ریاست کا جہاز زمین گرفتہ ہوچکا ہو تو منتخب حکومت کی توجہ جہاز کے ملبہ کی طرف مبذول کرانی چاہئے نہ کہ ان کاموں اور اداکاروں کی طرف جنہوں نے ایسا کیا۔ یہ شخصیات کا تصادم نہیں بلکہ نظریات اور مفادات کا تصادم ہے۔
(مضمون نگار گریٹر کشمیرکےکنٹریبیوٹنگ ایڈیٹر ہیں۔)