سرینگر// عوامی اتحاد پارٹی کے صدراورممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ ایسے میں کہ جب ستر سال سے زیادہ کے عرصہ میں وادیٔ کشمیر کو جموں اور باقی دنیا سے جوڑے جانے کے لئے بھارت ایک بھی معتبر اور سال بھر کھلی رہنے والی سڑک نہ بناپایا ہو ہر دوسرے دن بند ہوجانے والی جموں-سرینگر شاہراہ پر ٹنل بنانے پر بہت زیادہ اچھل کود کرنا بچگانہ لگتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ناشری میں ٹنل کا افتتاح کرنے کے دوران ڈھول تاشے بجوانے اور بنگڑے ڈلوانے کی بجائے وزیر اعظم مودی کو اس بات کے لئے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگ لینی چاہیئے کہ جموں کشمیر کو اٹوٹ انگ کہلانے کے بجائے آج بھی ایسی ایک بھی سڑک میسر نہیں ہے کہ جسکے سال بھر کھلا رہنے کی توقع کی جاسکے اور جس پر اس یقین کے ساتھ سفر کیا جاسکے کہ آدمی جب جہاں چاہے جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس انداز سے بھاجپا سرکار اور اسکے مقامیحامی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ناشری میں ٹنل بناکر کوئی تیر مار لیا گیا ہو اور ریاستی عوام پر احسان کیا گیا ہووہ مضحکہ خیزاور حیران کن ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ٹنل کی تعمیر پر غیر ضروری اچھل کود کرکے دراصل اس شرمناک حقیقت کو جھٹلائے جانے کی کوشش ہورہی ہے کہ بھارت اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے اور ریاستی عوام کے حق خودارادیت کو دبائے رکھنے میں اس حد تک مصروف رہا کہ ریاست کو ستر سال کے طویل عرصہ میں ایک بھی ایسی شاہراہ فراہم نہ ہوسکی کہ جو سال بھر کھلی رہے اور جس پر بھروسہ کرکے یہاں کے لوگ اپنے سفر کو یقینی سمجھ سکیں۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کے عوام کی سیاسی خواہشات اور مطالبۂ حق خود ارادیت کے جواب میں بھارت کا محض ایک جواب ہے کہ وہ ریاست کو اقتصادی پیکیج دیتا آرہا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بڑے سے بڑا اقتصادی پیکیج یا ایسی کوئی اور چیز ریاستی عوام کی سیاسی خواہشات اور حق خود ارادیت کا متبادل نہیں ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام بھک منگے نہیں ہیں لہٰذا بھارت کو بھی ایسا تاثر نہیں دینا چاہیئے کہ جیسے یہاں کے عوام اس سے بھیک مانگ رہے ہوں یا ان پر کوئی احسان کیا جارہاہو۔انجینئر رشید نے مزید کہا کہ اگر پیکیج دینا یا اثاثے کھڑا کرنا واقعی سیاسی تصفیوں کا متبادل ہوسکتا تھا تو پھر برطانیہ بھارت کو بہترین ترقیاتی منصوبے اور اقتصادی پیکیج دے سکتا تھا۔انہوں نے کہا ہے کہ بھارت کی آزادی کی کئی دہائیوں کے بعد آج بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں ہوسکتا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اورصدارتی محل سمیت اس ملک کی بیشتر نامور تعمیرات برطانیہ کی ہی دین ہے۔انہوں نے کہا کہ ان تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کو چند ایک کلومیٹر کی ٹنل تعمیر کرنے پر بہت زیادہ اچھلنے اور اسے کشمیریوں پر احسان کی طرح پیش کرنے میں شرم محسوس کرنی چاہیئے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ٹنل اس شاہراہ پر تعمیر ہوئی ہے کہ جو اپنی خستہ حالی کی وجہ سے موت کی شاہراہ بنی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم مودی واقعی جموں کشمیر کو کچھ دینا ہی چاہتے ہیں اور یہاں کے عوام کے لئے کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو پھر انہیں جموں کشمیر کے عوام کوبین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انکا حق خود ارادیت دینے میں جلدی کرنی چاہیئے۔انجینئر رشید نے پارلیمنٹ میں راجناتھ سنگھ کے اس بیان کو گمراہ کن اور حقیقت سے دور قرار دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ سنگ بازوں کو پاکستان گمراہ کر رہا ہے ۔ انجینئر رشید نے کہا ’’سنگ باز نہ تو پاکستانی ہیں اور نہ ہی کسی کے کرایہ دار بلکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں پاکستانی ایجنٹ قرار دیکر راجناتھ سنگھ جیسے لوگ اپنے آپ کو تسلیاں دیتے آئے ہیں ۔ عجب نہیں کہ جب ہندوستان پاکستان پر یہ الزام لگائے کہ وہ اب سرحد پار سے ہتھیاروں کے بدلے پتھر بھیج رہا ہے ۔ کشمیر میں کسی کو سنگبازی کا شوق نہیں لیکن لگتا ہے کہ اب ہر کشمیری یہ بات سمجھ چکا ہے کہ ہندوستان ان کی پُر امن تحریک کو کمزوری سمجھتا ہے ‘‘۔