جموں میں موسم گرماکا آغاز ہوتے ہی بجلی کٹوتی کا سلسلہ بھی شرو ع ہوگیاہے جس سے حکام کے بغیر کٹوتی کے بجلی فراہمی کے دعوئوں کی نفی ہوتی ہے ۔اس غیر اعلانیہ بجلی کٹوتی نے صارفین کو ابھی سے پریشان کررکھاہے اورتشویشناک بات یہ ہے کہ جیسے جیسے گرمیاں بڑھیں گی ویسے ہی بجلی کٹوتی میں بھی اضافہ ہوتاجائے گا۔ آبی وسائل سے مالا مال ریاست جموں و کشمیر میں بدقسمتی سے یہ ایک معمول بن گیاہے کہ بجلی کی کٹوتی اسی وقت کی جاتی ہے جب اس کی سب سے زیادہ ضرور ت ہوتی ہے ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سردیوں میں کشمیر وادی میں بجلی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گرمیوں میں جموں صوبہ میں بجلی کے بغیر ایک پل گزارنا بھی مشکل بن جاتاہے لیکن حکام کی طرف سے ضرورت کے وقت بجلی فراہمی کے بجائے گرمیوں میں جموں تو سردیوں میں کشمیر میں کٹوتیاں کی جاتی ہیں اور یہی ایک ایسا اصول ہے جس پر ہر سال بے ہنگم طریقےپر عمل ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ غیر قانونی کنکشنوں اور الیکٹرانک آلات کے استعمال سے بجلی کی سپلائی پر دبائو بڑھ جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دوڑ میں سرکاری ادارے بھی پیچھے نہیں ۔ لیکن عوام سے باربار کٹوتی کے باوجود پوری فیس وصول کرلی جاتی ہے ۔دراصل سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی طلب اور سپلائی میں نمایاں تفاوت ہے جس کی وجہ سے محکمہ کٹوتی پر مجبور ہوتاہے لیکن اس تفاوت کو تمام تر دعوئوں کے باوجود ور نہیں کیاجاسکاہے ۔ متعلقہ حکام کی طرف سے یہ یقین دہانیاں دلائی گئی تھیں کہ 2019تک طلب اور سپلائی کی تفاوت کو ختم کرلیاجائے گا اور ریاست کو ضرورت کے مطابق بجلی سپلائی ہوگی جس کے بعد چوبیس گھنٹے سپلائی فراہم کی جائے گی مگر عملی سطح پراس سلسلے میں کوئی بھی اقدام نہیں کیاگیاجس کے نتیجہ میں لوگوں کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں ۔ریاست کے پانی کو استعمال کرکے یہاں این ایچ پی سی کی طرف سے بڑے بڑ ے پاورپروجیکٹ بنائے گئے ہیں جبکہ کئی پر کام چل رہاہے یا شرو ع ہونے جارہاہے لیکن ان پروجیکٹوں سے پیدا کی جانے والی بجلی کو بیرون ریاست سپلائی کیاجارہاہے اور خود ریاست اندھیرے میں ڈوبی رہتی ہے ۔کتنی ناانصافی کی بات ہے کہ خطہ چناب ،جہاں سے بڑے پیمانے پر بجلی پیداہوتی ہے ، میں سپلائی کی صورتحال انتہائی ابتر ہے جبکہ اسی طرح سے خطہ پیر پنچال میں بجلی نظام کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ریاست کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی حالت بھی غیر مستحکم ہے اور جہاں کئی جگہوں پرترسیلی لائنیں کھمبوں کے بجائے پیڑوں سے لٹک رہی ہوتی ہیں وہیں ٹرانسفارمر خراب ہوجانے پر مہینوں تک ان کو ٹھیک کرکے واپس نصب نہیں کیاجاتا،جس سے بھی صارفین خاص طور پر تاجروں اور طلباء کو متاثر ہوناپڑتاہے ۔ان علاقوں کے عوام کو تو ہر موسم میں بجلی کٹوتی کا سامنا رہتاہے ۔حکومت کو موسم گرما میں جموں میں بجلی کٹوتی اور موسم سرما میں کشمیر میں بجلی کٹوتی کی روایت کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں اور ساتھ ہی خطہ پیر پنچال و خطہ چناب میں بھی کٹوتی کے لامتناعی سلسلہ کو ختم کیاجائے ۔آخر کب ریاستی عوام کو بھی چوبیس گھنٹے بجلی سپلائی ہوگی اور بجلی کے شعبے میں دکھائے گئے خودکفالت کے خواب پورے ہوں گے ۔؟