روہنگیائی مسلمانوںکو کہیں پر بھی چین میسرنہیں اور نہ ہی انہیں اپنے گھر اور نہ ہی پردیس میں آرام سے رہنے دیاجارہاہے ۔میانمار کی حکومت کا ستایاہوایہ قبیلہ گھر بار چھوڑ کر ہجرت جاری رکھے ہوئے ہے اور حالیہ ظلم و زیادتی کے نتیجہ میں اب تک لگ بھگ تین لاکھ افراد نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور زخمی بھی ہوئے ہیں ۔میانمار کے رخائن صوبہ میں پچھلے کئی برسوںسے اس قبیلہ کی نسل کشی ہورہی ہے اور موت کے خوف سے چند برس پہلے ہزاروں افراداپنے ملک سے بھاگ کر ہندوستان کے مختلف حصوں میں پنا ہ گزیں ہوئے جن میںسے پانچ سے چھ ہزار افراد جموں میں بھی آکر کچی بستیوں اور جھگی جھونپڑیوں میں ٹھہرنے لگے ۔تاہم جموں میں مقیم ان کنبوں کے خلاف ایک مخصوص طبقہ کی طرف سے مہم شروع کی گئی اور انہیں جرائم پیشہ اور شدت پسند عناصرکانام دے کرواپس بھیجنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔آج صورتحال یہ ہے کہ جہاں ان کا آبائی علاقہ رخائن جل رہاہے وہیں جموں میں بھی ان کیلئے زمین تنگ ہوچکی ہے ۔ جموں میں کوئی بھی بات ہوتی ہے تو نشانہ روہنگیائی مسلمان بنتے ہیں ۔چاہے جرائم کا کوئی معاملہ ہو یاپھر فرقہ وارانہ نوعیت کاکوئی واقعہ ،روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف مہم چلانے والے عناصر ذمہ داری انہی پر ڈال دیتے ہیں اوران کے خلاف قانونی و عدالتی لڑائی بھی لڑی جاتی ہے ۔گزشتہ شام جموں میں روہنگیائی بستی کے قریب ایک گائے کاکٹاہواسر پایاگیا جس پر کوئی تحقیقات ہونے سے قبل ہی الزام روہنگیائی آبادی پر لگادیاگیا اور اس بات کی اطلاعات ہیں کہ پولیس نے ان کی گرفتاری عمل میںلانے میں تاخیر نہیں کی اور سات افراد گرفتار کرلئے گئے۔اس حق میں کوئی بھی نہیں ہے کہ روہنگیائی مسلمان جموں میں ہی مقیم رہیں بلکہ سبھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے آبائی علاقے میں امن قائم ہو اور وہ بھی اپنے وطن واپس جاکر کام کاج کریں لیکن چونکہ فی الوقت میانمار میں ان کے خلاف ایک جنگ لڑی جارہی ہے اس لئے ایسے حالات میں ان کو جموںسے نکلنے کی دھمکیاں دینا انسانیت کے منافی ہے ۔روہنگیائی ایک انسانی المیہ ہے اوریہ آبادی اس قدر یکطرفہ مظالم کاشکار ہے جس کی موجودہ دور میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔انسانیت کا یہی تقاضہ ہے کہ حالات کے مارے ان کنبوں کو عارضی طور پر رہنے کیلئے جگہ دی جائے اور ان کے ساتھ انسانیت سے پیش آیاجائے ۔انہیں جرائم پیشہ ،ملک دشمن اور شدت پسندعناصر کا نام دینا اس انسانی المیہ کا حل نہیں ہے ۔جموں میں جس قدر جرائم بیرون ریاست کے شہریوں کے یہاں رہنے سے پھیل رہاہے ،وہ نوجوان نسل کیلئے تشویشناک ہے تاہم اس بارے میں کوئی بھی نہیں سوچ رہااور ہر برے کام کا الزام روہنگیائیوںپر ڈال دیاجاتاہے ۔جموں اورآس پاس کے علاقوں میں منشیات کا دھندہ اس قدر بڑھ چکاہے کہ صرف جموں ضلع میں لگ بھگ دو سو افراد اسی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے اور ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق اس خطے میں ہر پانچواں نوجوان منشیات کا عادی ہے ۔’سنجیونی‘ کے نام سے ضلع پولیس کی طرف سے منشیات مخالف مہم چلائی جارہی ہے اورایس ایس پی جموں کی میڈیا بریفنگ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس میں ملوث روزانہ اوسطاًتین افرادگرفتار کئے جاتے ہیں جن میں سے دو کا تعلق بیرون ریاست خاص کرپنجاب سے ہوتاہے ۔بیرون ریاست سے لائی جارہی منشیات، جو جموں کی نوجوان نسل کو تاخت و تاراج کر رہی ہیں، کا دھندا کرنےو الوں پر اُن حلقوں کی جانب سے کوئی بات نہیں کی جاتی جو مہاجرین کےخلاف مہم چلا کر اُنہیں جرائم پیشہ جتلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جموں میں آباد روہنگیائی کنبوںکو شک کی نظروںسے دیکھنے کے بجائے ان کے ساتھ انسانیت کے طور پر پیش آناچاہئے اورعالمی برادری سمیت ہندوستانی قیادت کو بھی یہ کوششیں کرنی چاہئیں کہ ان کے آبائی علاقہ رخائن میں امن قائم ہو اور وہ بھی عزت سے اپنے گھر وں کو واپس جاسکیں ۔ اگر کوئی شخص کسی جرم میں ملوث ہوتو اس کے خلاف کارروائی کرنا قانون کا منطقی تقاضا ہے ۔تاہم مذہبی بنیادوں پر ہر ایک کو تشکیک کے دائرے میں لا کر مجرموں کے کھاتے میں ڈالنا انسانیت کے اصولوں کے منافی ہےاوروہ بھی ایسے حالات میں جب ان کا آبائی علاقہ جل رہاہو اور وہ یہاں غیر قانونی طور پر نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی رجسٹریشن کے تحت رہ رہے ہوں۔