جموں// مرکزی وزارت داخلہ نے جموں میں مقیم روہنگیائی مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے طریقوں پر غور کرنا شروع کردیا ہے۔دی نیو انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ جموں وکشمیر حکومت کے ریاست میں غیرقانونی طور پر مقیم دس ہزار روہنگیائی رفوجیوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے پر غور کررہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق داخلہ سکریٹری راجیو مہرشی کی جانب سے پیر کو بلائی گئی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں روہنگیائی مسلمانوں کو جموں بدر کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔ میٹنگ میں ریاستی چیف سکریٹری بی آر شرما اور پولیس سربراہ ڈاکٹر ایس پی وید نے بھی شرکت کی۔ رپورٹ میں مرکزی وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے حوالے سے کہا گیا ہے ’وزارت (داخلہ) جموں وکشمیر میں مقیم روہنگیائی مسلمانوں کی شناخت کرنے اور انہیں وہاں سے نکالنے کے طریقوں پر غور کررہی ہے‘۔ قابل ذکر ہے کہ جموں میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب تین لاکھ رفیوجی بھی رہائش پذیر ہیں، تاہم بی جے پی اور پنتھرز پارٹی انہیں ہر ایک سہولیت فراہم کئے جانے کے حق میں ہیں۔ ریاستی حکومت نے شہر میںمقیم روہنگیائی رفوجیوں اور بنگلہ دیشی شہریوں کے پاس موجوددستاویزات کی جانچ پڑتال کا عمل شروع کردیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر جموں سمرن دیپ سنگھ نے یو این آئی کو بتایا تھا ’ہمیں اطلاعات ملی تھیں کہ ان رفوجیوں میں سے ایک کنبے نے شناختی دستاویزات حاصل کرلئے ہیں۔ تحقیقات کے دوران الزامات کی تصدیق ہوئی جس کی بناء پر ہم نے اپنے ڈیٹا بیس کو اسکین کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر مزید کسی مہاجر نے شناختی دستاویز حاصل کیا ہو، اس کا شناختی دستاویز اسکینگ کے ذریعے ڈیٹا بیس سے خارج کیا جائے گا‘۔ انہوں نے بتایا تھا ’وہ (روہنگیائی رفیوجی اور بنگلہ دیشی شہری) مبینہ طور پر مقامی شناخت اور سکونت کے دستاویزات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ان دستاویزات کے ذریعے مختلف خدمات سے فائدہ اٹھارہے ہیں‘۔ سنگھ نے بتایا تھا کہ 30 ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں یہ روہنگیائی رفوجی اور بنگلہ دیشی شہری یا تو کرایہ یا غیرقانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جموں کے مختلف حصوں میںمقیم بنگلہ دیش اور میانمار کے تارکین وطن کی تعداد 13 ہزار 400 ہے۔ ایڈوکیٹ ہنر گپتا جو کہ بی جے پی کی لیگل سیل کے ممبر بھی ہیں، نے ریاستی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کر رکھی ہے جس میں عدالت سے جموں میں مقیم برما کے روہنگیائی تارکین وطن اور بنگلہ دیشی شہریوں کی شناخت کرکے انہیں جموں بدر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ عرضی گذار نے الزام لگایا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی جموں میں موجودگی سے ریاست میں علیحدگی پسندحمایت اور بھارت مخالف سرگرمیوںمیں اضافہ ہوگا۔ ہنر گپتا نے دائر کردہ مفاد عامہ کی عرضی میں عدالت سے یہ کہتے ہوئے میانمار اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن کو جموں وکشمیر سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی استدعا کی ہے کہ ریاست یا اقوام متحدہ نے جموں وکشمیر کے کسی بھی جگہ کو رفیوجی کیمپ قرار نہیں دیا ہے۔ مفاد عامہ کی عرضی میں بنگلہ دیش اور میانمار کے تارکین وطن کی تعداد میں گذشتہ چند برسوں کے دوران ہونے والے اچانک اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ فروری کے اوائل میں جموں شہر میں چند ہورڈنگز نمودار ہوئیں جن کے ذریعے پنتھرز پارٹی کے لیڈروں نے روہنگیائی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کو جموں چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔ دریں اثنا جموں میں متحرک تنظیم ’جموں کشمیر فریڈم موومنٹ‘ کا کہنا ہے کہ اگر بے بس اور لاچار برمی مسلمانوں کے خلاف ریاستی سرکار کوئی کارروائی کرتی ہے تو اس صورت میں پوری ریاست سے غیرریاستی باشندوں کو ریاست سے باہر نکالنے کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی جائے گی۔ اس تنظیم کا کہنا ہے ’یہ لوگ تو برمی بدھوں کی زیادتیوں کے شکار ہیں اوردنیا کے مختلف ممالک کی طرح ہندستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ ریاست جموں کشمیر میں بھی عارضی طورپر رہایش کررہے ہیں جو محض ایک انسانی مسئلہ ہے۔اس کے برعکس دیگر غیرریاستی باشندوکا کوئی انسانی مسئلہ نہیں ہیں۔وہ جہاں سے ریاست میں آئے ہیں آرام سے اپنے گھروںکوواپس جاسکتے ہیں‘۔ یو این آئی