جموں شہر میں مسافر بردار ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے اور یہ اب روزانہ سفر کرنے والوں کےلئے کسی مصیبت سے کم نہیں۔ میٹاڈورڈرائیوروں کی طرف سے طویل وقفوں تک گاڑیوں کو ایک ہی سٹاپ پر کھڑے رکھنا اور اضافی کرایہ کی وصولی ایسے مسائل ہیں جن کامسافروں کو روزانہ شکار ہوناپڑتاہے ۔حالانکہ جگہ جگہ ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی تعینات ہوتے ہیں مگر ان کی جانب سے من مرضی کرنے والے ڈرائیوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور ان کا جہاں جی چاہتاہے وہ گاڑی کھڑی کرکے بولی لگانا شروع کردیتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں پیچھاکررہی کوئی دوسری گاڑی نظر آتی ہے توپھر اس تیزرفتاری سے دوڑ لگاتے ہیں کہ کئی مسافر وں پر خوف طاری ہونے لگتاہے ۔میٹاڈورڈرائیوروں کی اس بدنظمی کے باعث شہر کے ہر ایک چوراہے اوردیگر کئی مقامات پر روزانہ ٹریفک جام لگتے ہیں جن کے نتیجہ میں عام لوگوں کو متاثر ہوناپڑتاہے ۔خاص طور پر دربار کی سرینگر سے جموں منتقلی کے بعد یہ نظام اور زیادہ بگڑ گیاہے اور مسافر گاڑیوں پر سواریوں کا دبائوبڑھ جانے کے ساتھ ساتھ ان گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے لالچ میںبھی اضافہ ہوگیا۔ جو سٹینڈ سے تب تک نہیں نکلتے جب تک کہ گاڑی پوری طرح سے کھچا کھچ بھر نہ جائے یاپھر پیچھے سے کوئی دوسری گاڑی نہ آجائے ۔اکثرڈرائیوروں کی خود غرضی کی وجہ سے مسافر وقت پر اپنی اپنی منزل نہیں پہنچ پاتے اور دس منٹ کا سفر طے کرنے میں انہیں کئی بارایک ایک گھنٹہ بھی لگ جاتاہے ۔اگرچہ پوری ریاست میں پبلک ٹرانسپورٹ نظام اسی طرح کی تصویر پیش کرتاہےلیکن جموں شہر میں فی الوقت یہ ایک مصیبت بن رہا ہے۔ ہر جگہ مسافر بسوں اور سومو و آٹو رکھشاگاڑیوں کے ڈرائیوروں کی من مانی چلتی ہے اور تیزرفتاری نیزائورلوڈنگ ایسے مسائل بنے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف لوگ روزانہ پریشان ہوتے ہیں بلکہ اس سے آج تک کئی سڑک حادثات بھی رونماہوچکے ہیں مگرجموں جیسے شہر میں جہاں چوبیس گھنٹے ٹریفک اہلکار تعینات رہتے ہیں ، ڈرائیوروں کی من مانی متعلقہ حکام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کرتی ہے ۔چونکہ جموں یا سرینگر میں ٹریفک کا دبائو بھی بہت زیادہ ہوتاہے لہٰذا ایک مسافر بس کے ڈرائیور کی غلطی سے بھی پوری سڑک بندہوجاتی ہے اور ٹریفک جام کے نتیجہ میں سینکڑوں گاڑیاں پھنس جاتی ہیںاورجموں میں آئے روزایسا دیکھنے کو ملتاہے۔ایسا بھی نہیں کہ جموںشہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کوسنبھال پانا مشکل ہے بلکہ اگر حکام چاہیں تو اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے جیساکہ پچھلے سال دیکھابھی دیاگیاجب سابق آئی جی ٹریفک نے خود ڈیوٹی پر مامور رہ کر بگڑے ہوئے اس نظام کو چند دنوں کے اندر سدھاراتھا اور میٹاڈورڈرائیوروں سمیت سبھی سبھی مسافر بردار ٹرانسپورٹر پابندی سے ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے نظر آئے مگر اس کیلئے عملی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن کا انتظارہی کیاجارہاہے۔کرایہ وصولی کے حوالے سے یہ شکایات عام ہیں کہ میٹاڈوروں میں روٹ کے کرایہ سے متعلق جانکاری نہ رکھنے والوں سے اضافی پیسے وصول کرلئے جاتے ہیں جبکہ آٹو رکھشا چلانے والے ہر ایک ڈرائیور کا اپنا ہی ریٹ ہوتاہے ۔کرایہ میں معقولیت لانے کیلئے حکام کی طرف سے ماضی میں متعدد مرتبہ کوششیں بھی کی گئیں لیکن عملی سطح پر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں شہر ہی نہیں بلکہ پوری ریاست میں بگڑے ہوئے اس نظام میں بہتری لانے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سے بہتر خدمات میسر ہوسکیں اور انہیں دوران ِسفر کسی بھی مشکل کاسامنا نہ کرناپڑے جس کیلئے ٹریفک عملے کو پچھلے سال کی طرح پھر سے متحرک ہوناپڑے گا۔