سرینگر//پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ جموں میں بعض شرپسند عناصر مسلمانوں بالخصوص گوجر طبقے کو ہراساں کررہے ہیں، جس کے نتائج سنگین نکل سکتے ہیں۔سرینگر میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ مخلوط سرکار کے گرنے کے بعد دسمبر 2018 میں گجروں کے خلاف انسداد تجاوزات مہم کے دوران جموں میں 33 خانہ بندوش کنبوں کو جگہ خالی کرنے کی نوٹسیں ارسال کی گئی ہیں، جبکہ بہ حیثیت وزیر اعلیٰ انہوں نے واضح ہدایات دی تھی کہ جب تک قبائلی پالیسی مرتب نہیں کی جاتی کسی بھی قبیلے کو اس وقت تک نہ ہی پریشان کیا جائے اور نہ انہیں بے دخل کیا جائے۔ محبوبہ مفتی نے فرقہ پرست اور انتہا پسند گروپوں کی طرف سے جاری مہم ’یک جٹ جموں مہا ادھی ویشن‘ کے دوران جموی مسلمانوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے کی دھمکی دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ مبینہ طور پر مسلمان کالنیوں میں اضافے سے جموں کو خطرے کی بات پھیلائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا’’ ان انتہا پسند عناصر نے تازہ بود باش کرنے والے لوگوں میں خوف پیدا کیا ہے جبکہ انہیں جسمانی طور پر بھی ہدف بنایا جا رہا ہے،تاکہ وہ جموں میں رہائش اختیار کرنے کا منصوبہ نہ بنائے،جبکہ ماضی میں بھی انہوں نے یہی کیا ہے‘‘۔ انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ سنجیون بٹھنڈی میں ایک کروڑ 50 لاکھ روپے فی کنال،جبکہ اس کے برعکس چیواڑی میں65لاکھ روپے فی کنال اراضی کی قیمت ہے،اور یہ دانستہ طور پر اٹھایا گیا قدم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی بھی کوشش کی جاری ہے کہ جموں میں تمام مسلمان علاقوں کو جموں میونسپلٹی کے حدود میں لایا جائے،تاکہ تعمیراتی کاموں کو بند کیا جاسکے۔ سابق وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ انکی جماعت اس کے خلاف آواز بلند کرے گی،اور ریاست کی طرف سے پسماندہ طبقے کے ساتھ کسی بھی امتیاز کو اجاگر کرے گی۔انہوں نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ پرست منصوبوں کو رنگ بھرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا’’ جموں میں اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کے کشمیر میں سنگین اثرات مرتب ہونگے اور صورتحال کنٹرول سے باہر ہوجائے گی‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگر گورنر صاحب اس نازک صورتحال کو نہیں سنبھالیں گے تو اس کے نتائج نہ صرف جموں بلکہ کشمیر کے لئے بھی بہت خطرناک ہوں گے۔ جموں میں کچھ ہوتا ہے تو اس کا اثر وادی میں دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں کچھ ہوتا ہے تو اس کا اثر جموں میں دیکھا جاتا ہے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوسکتی ہے‘۔ انہوں نے کہا ’گوجر بکروال طبقہ سب سے زیادہ وفادار طبقہ ہے۔ اس طبقے نے اس ملک کی حفاظت کی ہے۔ آج اگر ہم ان ہی کے گھر توڑیں گے اور انہیں اپنے گھروں سے کھدیڑیں گے تو یہ اس ریاست کے لئے اچھا نہیں ہے‘۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھیڑ بکریاں پالنے والے گوجر بکروال طبقے کو مویشیوں کی سمگلنگ کے نام پر بھی تنگ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جموں وکشمیر میں مسلمانوں کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جیسا ان کے ملک میں ہورہا ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا ’صوبہ جموں گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے ملی جلی تہذیب کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔ جب کشمیر میں حالات خراب ہوئے تو یہ جموں ہی تھا جس نے یہاں سے ہجرت کرنے والے لوگوں کو جگہ دی۔ انہوں نے کہا ’ہماری حکومت ٹوٹنے کے محض ایک ماہ بعد درجنوں گجربکروالوں کنبوں کو نوٹس بھیجے گئے کہ وہ اپنے گھر خالی کرے۔ دسمبر کے مہینے میں بھی انکروچمنٹ کے نام پر کئی گوجر بکروال کنبے اپنے گھروں سے بے دخل کئے گئے۔