ریاست میں محکمہ صحت میں کا نظام کس قدر خستہ حالی کاشکار ہے اس کا اندازہ لگاپانا بھی مشکل ہے ۔ ا س اہم شعبے کے ہرگزرنے والے دن کے ساتھ کاروباری شکل وصورت اختیار کرجانے کی وجہ سے اس میں دن بدن بگاڑ آتاجارہاہے اور جہاں زائد المیعاد ادویات کی فروخت ایک عام بات بن گئی ہے وہیںقواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر غیر قانونی طور پر نرسنگ ہومز اور کلینک لیبارٹریاں چلائی جارہی ہیں ۔شعبے کے اندر کے حال کا پردہ تب فاش ہواجب گزشتہ روز ویجی لینس آرگنائزیشن نے جموں،سانبہ ،کٹھوعہ ،اودھمپور،ریاسی اورراجوری میں اچانک چھاپے مار کرنرسنگ ہومز اور کلنکل لیبارٹریوں کا معائنہ کیا جس کے دوران 41نرسنگ ہومز کا ریکارڈ ضبط کرلیا گیاجبکہ متعدد کو سیل کیاگیا ۔اس دوران جہاں سرکاری ملازم نجی ادارے چلاتے ہوئے پائے گئے وہیں حیران کن طور پر ضلع کٹھوعہ میں بیرون ریاست سے تعلق رکھنے والاایک شخص کوبھی غیر قانونی طور پر کلینک لیب چلاتے ہوئے پایاگیا ۔ویجی لینس کارروائی کے دوران زائد المیعاد ادویات اور دیگر سازوسامان بھی برآمد ہوا ۔جہاں کٹھوعہ اور ضلع راجوری میں صورتحال انتہائی تشویشناک دکھائی دی وہیں جموں ضلع میں کچھ ایسے کلینک لیب بھی زائد المیعاد سامان استعمال کرتے پائے گئے جو نہ صرف نامی گرامی ہیں بلکہ معروف ڈاکٹر بھی مریضوںکو انہی کلینکوںسے ٹیسٹ کرانے کی تجویز کرتے ہیں ۔ ان کلینک لیبارٹریوں میں گاندھی نگر میں واقع ایک معروف لیب بھی ہے جہاں ویجی لینس کے مطابق زائد المیعاد کِٹ پائے گئے ۔ واضح رہے کہ گاندھی نگر میں کئی معروف ڈاکٹر بیٹھتے ہیں جن میںسے بیشتر مریضوں کو تشخیصی ٹیسٹوں کیلئے اسی لیب کاراستہ بتاتے ہیں ۔سرحدی ضلع راجوری جو صحت کے شعبے میں ہمیشہ ہی سرخیوں میں رہاہے ،میں ویجی لینس چھاپے کے دوران حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ ایک سرجیکل کلینک چلانے والا شخص ضلع ہسپتال راجوری میں ہڈیوں کے امراض کا ماہرڈاکٹر ہے ۔اسی طرح سے ایک سرکاری ملازم ضلع ہسپتال میں ہی بیسک ہیلتھ ورکر کے طور پر کام کرتاہے ، ڈیوٹی کے اوقات میں باہر کام کرتے پایاگیا۔ویجی لینس چھاپے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سے کلینک اور نرسنگ ہومز ایسے بھی ہیں جو رجسٹریشن کے بغیر چل رہے ہیں ۔ایسے مراکز نہ صرف پہاڑی اضلاع میں ہیں بلکہ جموں ضلع میں پائے جاتے ہیں جن کو اگرچہ سیل کردیاگیا لیکن جب تک اس نظام میں اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک تبدیلی نہیں لائی جائے گی تب تک حالات بدلنے والے نہیںہیں ۔ محکمہ میں پائی جارہی ان خرابیوں پر پر دہ ہی پڑارہتالیکن بھلا ہو ویجی لینس آرگنائزیشن کا جس نے چھاپے مار کر سورہے حکام کو کم از کم جگاتو دیا۔اب متعلقہ حکام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مریضوں پر رحم کھاکر ایسے غیر قانونی کاروبار پر لگام کسیں اور لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹاجائے ۔اس مرحلے پر محکمہ کے ان افسران کے خلاف بھی کارروائی کئے جانے کی ضرورت ہے جن کی ناک تلے یہ مراکز چل رہے ہیں یا جنہوں نے رجسٹریشن کے عمل کی جانچ نہیں کی اور خواب خرگو ش میں رہے ۔امید کی جانی چاہئے کہ ویجی لینس کارروائی کے بعد حکام کی آنکھیں کھل جائیںگی اور وہ اس شعبے میں اصلاحات لانے کیلئے اقدامات کریںگے ۔