گوکہ حالیہ نتائج کے بعد جموں صوبہ میں محکمہ تعلیم شادماں ہے تاہم یہ صوبہ میں شعبہ تعلیم کی اصل صورتحال نہیں ہے جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ صوبہ میں سکولی تعلیم محکمہ مائل بہ تنزل ہے۔یہ محض الزامات نہیں بلکہ اعدادوشمار خود بولتے ہیں کہ سرکاری سکولوں کی کارکردگی کس قدر مایوس کن ہے۔صورتحال اس لئے بھی زیادہ پریشان کن ہے کہ قصبوں اور شہروں میں بیشتر بچے نجی سکولوں میں زیر تعلیم ہیں جبکہ دیہی ،دوردراز اور پسماند ہ علاقوں کے بچے ہی سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور بیشتر سرکاری سکول انہی علاقوں میں قائم ہیں ۔قصبوں اور شہروں کے نجی سکولوں کی کار کر دگی اس بار بھی گوکہ حسب توقع کافی اچھی رہی اور میرٹ لسٹ میں یہ نجی ادارے سر ِ فہر ست رہے تاہم سرکاری سکول خاطر خواہ نتائج دینے میں ایک بار پھر ناکام ہورہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ کچھ برسوں کے دوران حکومت نے دیہی علاقوں میں بظاہر تعلیمی ڈھانچہ مستحکم کر نے کے لئے نہ صرف ہر چھوٹے سے چھوٹے گائوں میں نئے سکول کھول دئے بلکہ پرانے سکولوں کا درجہ بڑھانے میں بھی خاصی فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔یوں اس پالیسی کے ذریعے بے شک تعداد کے لحاظ سے سرکاری تعلیمی اداروں میں بے پناہ اضافہ ہوا تاہم معیارکا کیا حشر ہوا ،وہ ان سالانہ امتحانات کے ان نتائج سے واضح ہوجاتا ہے ۔ جب محکمہ تعلیم کے حکام سے اس تشویشناک رجحان کی وجہ معلوم کی جاتی ہے تووہ کوئی وقت ضائع کئے بغیر یہ کہہ کر اپنے سر سے بلا ٹالتے ہیں کہ سکول بھی ہیں اور اساتذہ بھی ،اب اگر بچے پڑھائی کی جانب دھیان نہ دیں تو اس میں متعلقین کا کیا قصور ہے تاہم جب معاملات کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو کوئی اور ہی صورت ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔اس افسوسناک صورتحال کیلئے طلبہ کی کم ذہنیت نہیں بلکہ دراصل سرکاری نظام میں موجود خامیاں ذمہ دار ہیں۔ دیہی اور پہاڑی علاقوں کے طلبہ ذہانت اور قابلیت میں شہری یا پرائیویٹ سکولوں کے طلبہ سے کسی طرح کم نہیںہیں لیکن جب انہیں وہ ماحول اور سہولیات ہی میسر نہیں تو ان سے اعلیٰ کار کردگی کی توقع رکھنا عبث ہے ۔ سکول تو کھول دئے گئے ہیں لیکن بیشترسکولوں میں طلبہ کے بیٹھنے کا کوئی انتظام ہے ،نہ ہی مناسب عمارت موجود ہے ۔ اساتذہ کی قلت ان سکولوں کے لئے ایک مستقل مسئلہ ہے اور جو اساتذہ تعینات ہیں ، انہیں درس و تدریس سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے ۔انہیں ہر ماہ تنخواہ کے طور پر ایک موٹی سی رقم مل جاتی ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کس طرح ہو ، اسی فکر میں سر گرداں رہتے ہیں۔ سب سے بڑا نقص بنیادی یعنی پرائمری تعلیم میں ہے،جہاں طالبعلم پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے ۔ ان سکولوں میں زیادہ تر مقامی اساتذہ تعینات ہیں اور بیشتر تو ایک ہی سکول میں ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ۔ ان کی توجہ تدریسی عمل میں کم اور مقامی سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ ہو تی ہے جس کی وجہ سے انہیں طلبہ پر توجہ دینے کے لئے زیادہ وقت ہی نہیں ملتا ہے ۔ظاہر ہے کہ جب ان پرائمری اور مڈل سکولوں کے فارغین ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولوں میں پہنچتے ہیں تو کئی ایک کو ابجد کی بھی پوری پہچان نہیں ہو تی ۔ حالانکہ اس وقت بے انتہا مسابقت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نو جوان ہی بطور ِ سرکاری استاد بھرتی ہو پاتے ہیں مگر جب نتائج کی باری آتی ہے تو انتہائی کم تنخواہ یافتہ اور کم تعلیمی قابلیت والے پرائیویٹ سکولوں کے استاتذہ ان سے بازی لے جاتے ہیں ۔ اس کی وضاحت ایک عام شخص بھی کر سکتا ہے کہ چونکہ پرائیویٹ سکولوں میں متوسط طبقہ ، تعلیم یافتہ اور سرکاری ملازمین کے بچے پڑھتے ہیں جس کے لئے وہ با ضابطہ فیس ادا کر تے ہیں ، اسی لئے ان نجی اداروں میں تعینات تدریسی عملہ کا مسلسل احتساب ہو تا رہتا ہے، نیز دوسرے پرائیویٹ سکولوں سے مقابلہ آرائی بھی ہو تی ہے جس کے باعث ان کی کوشش رہتی ہے کہ طلبہ کو بہترین طریقہ سے تیار کیا جائے اور ان کے ادارہ کے زیادہ سے زیادہ بچے امتیازی نمبرحاصل کریں ۔ اس کے برعکس سرکاری سکولوں میں بالعموم اور دور دراز پہاڑی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں بالخصوص احتساب اور نگرانی کا کو ئی تصور ہی نہیں ہے ۔ کم نتائج آنے کے بعد چند اسا تذہ ، ہیڈ ماسٹروں اور پرنسپلوں کی تنخواہیں اور ترقیاں روک دی جاتی ہیں یا کچھ ایک کو معطل کر دیا جاتا ہے جس کی انہیں کوئی زیادہ پر واہ نہیں ہو تی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ رسمیات کا ایک حصہ ہے ، چند ماہ بعد ان کی تنخواہیں بھی انہیں مل جائیں گی اور وہ بحال بھی ہو جائیں گے ۔ چونکہ ان سرکاری اداروں میں زیر ِ تعلیم بیشترطلبہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ، اس لئے نہ تو کوئی زیادہ شور شرابہ اٹھتا ہے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ میں لے دے ہو تی ہے ۔ہمارے پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے یہ بات سوچنی ہو گی کہ یہ صورتحال ریاست کے پسماندہ پہاڑی اور دیہی علاقوں کو کس سمت لے جا رہی ہے ؟ کیا ان علاقوں کے بچوں کا یہ حق نہیں ہے کہ انہیں بھی معیاری تعلیم حاصل ہو ۔ کیا انہیں بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بھی پڑھ لکھ کر اور مسابقت کی دوڑ میں شامل ہو کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو نے کا خواب دیکھیں ؟اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا وہ بھی غریبی اور پسماندگی کی تاریکی سے نکل کر تعمیر و ترقی میں برا بر کی شراکت نہیں کر سکتے ؟ ۔اگر ارباب اختیار کو اس بات کا احساس ہے تو وقت آچکا ہے جب ہر نئے محلہ میں سکول کھولنے کی بجائے پہلے سے ہی قائم تعلیمی اداروں میں محض سروں کا اضافہ کرنے کے برعکس معیار تعلیم کی جانب توجہ مبذول کی جائے تاکہ پڑھے لکھے ان پڑھوں کی ایک فوج تیار کرنے کی بجائے علم ودانش سے آراستہ نوخیز نسل کی ایک ایسی کھیتی تیار کی جائے جس کا ثمرہ اس خطہ کو مل سکے ۔اُس وقت تک تعلیم کے حوالے سے بلند وبانگ دعوے کرناہوا میں تیر مارنے کے مترادف ہی ہوگا اور اُن سے نہ ہی کوئی متاثر ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ دعوے جموںوکشمیرکا کسی طرح بھلا کرسکتے ہیں۔