گورنمنٹ میڈیکل کالج و ہسپتال جموںاوراس سے منسلک شہر کے دیگرتمام چھوٹے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں صحت و صفائی کے ناقص انتظامات صوبہ بھر کے عوام کیلئے بہت بڑا مسئلہ بناہواہے اورشکایات کے باوجود کسی نے بھی اس جانب توجہ مبذول نہیں کی تاہم بھلا ہوریاستی وزیر اعلیٰ کا جنہوںنے گزشتہ دنوںطبی اداروں کا خود معائنہ کرکے سہولیات کا جائزہ لیا جس کے دوران یہ پایاگیاکہ لوگوں کی شکایات درست ہیں جس بناپر انہوںنے میڈیکل کالج کے سپرانٹنڈنٹ کو موقعہ پر ہی منسلک کرنے کی ہدایات جاری کیں ۔وزیر اعلیٰ نے متعلقہ محکمہ کے زیر انتظام ہسپتالوں میںصحت و صفائی ودیگر خدمات میں بہتری لانے کی ہدایات دیتے ہوئے ہسپتالوں میں غسلخانوں کوگندگی سے پاک رکھنے اور ائیر کنڈیشنرس و دیگر سہولیات میں بہتری لانے پر زور دیا ۔طبی نظام میں سدھار آئے گایا نہیں یہ تو آنیوالے وقت میں ہی معلوم ہوسکے گالیکن وزیر اعلیٰ کے دورے سے یہ بات عیاںہوگئی ہے کہ جموں کے سرکاری ہسپتالوںمیںسب کچھ ٹھیک نہیں اورمریضوں و تیماردار وںکی شکایات کچھ یوں ہی نہیں بلکہ نظام کے بگاڑ کی عکاس تھیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ گورنمنٹ میڈیکل کالج و ہسپتال جموں کے علاوہ شالیمار ہسپتال اور کچھ دیگر طبی ادارے سال بھر مریضوںسے بھرے رہتے ہیں اور ان ہسپتالوںمیں نہ صرف جموں بلکہ پیر پنچال اور چناب خطوںسے بھی بہت بڑی تعداد میں مریض یا زخمی زیر علاج ہوتے ہیں ۔ چونکہ پہاڑی اور دورافتادہ اضلاع میں لوگوںکو بہتر طبی سہولیات میسر نہیں ہیں اس لئے مجبوراًانہیں جموں کا رخ کرناپڑتاہے، جہاں کا حال ایسا ہے جو وزیر اعلیٰ نے بچشم خود دیکھ لیااور جس پر وہ نہ صرف برہم ہوئیں بلکہ انہیں موقعہ پر ہی کارروائی بھی کرناپڑی ۔ یہ شکایات عام ہیں کہ ان ہسپتالوںمیں جہاں پوری طرح سے سہولیات دستیاب نہیں، وہیں مریضوں کو علاج معالجہ کے لئے ترسایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ادویات باہر سے خریدنے پر مجبور کیا جاتاہے، جو ایک بہت بڑ ے مفاد پرستNEXUS کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ معاملہ اس شعبے کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے۔اگر طبی خدمات اور عوام کو درپیش مسائل کا بغورجائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ جموں میں معالجین کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اپنے پیشے کو کاروباری شکل دے رکھی ہے اور وہی ڈاکٹر جو سرکاری ہسپتال میں مریضوں کو دیکھنے سے بھی کتراتاہے ، کسی نجی کلینک میں مریض کا نہ صرف بہتر سے بہتر علاج کرنے کی کوشش کرتاہے بلکہ اس کے ساتھ بہت ہی نرمی کے ساتھ بھی پیش آتاہے اور یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ علاج میں معمولی سے مرض پر بھی تشخیص سے لیکر علاج تک ہزاروں روپے خرچ ہوجانے کا علم رکھنے کے باوجود لوگ سرکاری ہسپتالوںکے بجائے انہی کلینکوں پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ ایک ایسانظام قائم کردیاگیاہے جس میں سرکاری طبی ادارے خود قابل علاج بن چکے ہیں۔اس مقدس پیشے کے کاروبار کی شکل اختیار کرلینے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے جہاں کئی بڑے ڈاکٹر بھی پرائیویٹ کلینکوں اور ادویات فروشوں کے زیر اثرکام کررہے ہیں اور تشخیصی عمل اور اس کے بعد دوائیوں کی خرید اری تک کلینکوں اور ادویہ فروشوں کا پورا پورا خیال رکھاجاتاہے ۔وزیر اعلیٰ نے میڈیکل کالج کے سپرانٹنڈنٹ کو اٹیچ کرکے اچھی پہل کی ہے لیکن صرف ایک شخص کے خلاف کارروائی سے نظام میں سدھار نہیں آجائے گا بلکہ اس کیلئے اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک تطہیر کرناہوگی اور اس سے بھی زیادہ اہم اقدام یہ رہے گا کہ اگر ضلعی سطح کے ہسپتالوںکوہی سہولیات اور ضروری مشینری و مناسب افرادی قوت سے لیس کیاجائے تو جموں کے بڑے ہسپتالوں پر بوجھ بھی کم ہوگا اور خطہ پیر پنچال و خطہ چناب کے لوگوںکو جموں آنے جانے اور ڈاکٹروں کی فیس وتشخیصی ٹیسٹوں اور دوائیوں کی خرید پر ہزاروں روپے خرچ نہیں کرناپڑیںگے۔