جموں//آتشزدگی کی ایک پر اسرار واردات میں روہنگیائی مہاجرین کی 7جھگیاںجل کر خاک ہو گئیں۔ جمعہ کی صبح شہر کے بھگوتی نگر علاقہ میںہوئی اس واردات میں ان مسلم مہاجرین کا تمام ما ل و متاع بھی جل کر خاک ہو گیا۔تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ بادی النظر میں یہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہوگی۔ 70سالہ دولو حسین ساکن برما نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ’علی الصبح میں نے کچھ شور سنا تو اپنے بیٹے کو کہا کہ وہ معاملہ کا پتہ کرے، وہ باہر نکلا تو گھپ اندھیرے کی وجہ سے کوئی بھی نظر نہ آیا لیکن کچھ ہی دیر کے بعد جھگیوں میں سے آگ نمودار ہو گئی۔امرناتھ یاترا کے بیس کیمپ ’یاتری بھون ‘ کے متصل ایک رہائشی پلاٹ میں 45نفوس پر مشتمل 9برمی کنبے آباد ہیں جب کہ ایک بہاری ہندو کنبہ بھی یہاں جھگی بنا کر رہائش پذیر ہے ،یہ پلاٹ کے مقامی شہری راقب علی کی ملکیت ہے ۔ایس ایچ او نوآباد نیرج بھگت نے بتایا کہ ابھی تک کسی نے بھی اس سلسلہ میں شکایت درج نہیں کروائی ہے لیکن ہماری ابتدائی تحقیقات سے آتشزدگی کی وجہ شارٹ سرکٹ ہی معلوم ہو رہی ہے ، اگر کسی شرارتی عنصر نے آگ لگائی ہوتی تو نقصانات زیادہ بھیانک ہوتے۔ قابل ذکر ہے کہ جموں شہر کے مضافاتی علاقہ جات میں قریب 5000روہنگیائی مہاجرین گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بنا کر رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مختلف سیاسی ، سماجی اور کاروباری تنظیموں نے کچھ عرصہ سے انہیں جموں بدر کرنے کے لئے ایک منظم تحریک شروع کر رکھی ہے ۔ گزشتہ ہفتہ جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے پریس کانفرنس میں روہنگیائی مسلمانوں کیخلاف ’شناخت کرو اور قتل کرو‘ مہم چلانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس کے دوسرے ہی دن چیمبر صدر راکیش گپتا نے اپنے بیان کا غلط مطلب اخذ کئے جانے کی بات کہہ کر متنازعہ بیان سے پلٹی ماری تھی۔ چند روز قبل اودھے والا کے پٹہ بوہری علاقہ میں بھی روہنگیائی باشندوں کو زد وکوب کر کے جموں چھوڑنے کی دھمکی دی گئی تھی اور ان کی طر ف جمع کئے گئے کباڑ کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ بھگوتی نگر میں مقیم مہاجرین نے بتایا کہ ملحقہ پلاٹ پر بھی کچھ کنبے رہائش پذیر تھے لیکن انہیں کچھ لوگوں نے یہاں سے زبردستی نکال دیا ہے ۔فاطمہ خاتون نے نامی ایک مہاجر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے ، برما میں ہمارا قافیہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا اس لئے ہم نقل مکانی کر کے یہاں آگئے، جونہی ہمارے آبائی وطن میں حالات سازگار ہوتے ہیں ہم وہاں لوٹ جائیں گے۔ بہت بہتر ہوتا کہ مودی سرکار ہمیں یہاں عارضی قیام کیلئے جگہ فراہم کرتی ، جونہی حالات سازگار ہوتے ہیں ہم برما لوٹ جائیں گے‘۔ فاطمہ کا شوہر نہیں ہے، وہ اپنے بیٹے اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہ رہی ہے، بیٹا کچھ نجی کام کر تا ہے ۔ ’میرا شوہر نہیں ہے اس لئے میں اپنے مستقبل کے بارے میں از خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی، میں بھی وہی کرونگی جو دوسرے لوگ کریں گے، میںنہیں جانتی کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے ‘‘۔ زمین مالک راقب علی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس نے اس پلاٹ میں قیام پذیر روہنگیائی مہاجرین کی تمام تفاصیل پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کو مہیا کر رکھی ہیں۔ ہر کنبہ جھگی بنانے کے لئے 1000روپے کے علاوہ بجلی کے کرایہ کے طور پر 300روپے زمین مالک کو ادا کر تا ہے ۔راقب علی نے بتایا کہ ’’روہنگیائی بہت محنت کش ہیں، محنت مزدوری کر کے دووقت کا چولہا جلاتے ہیں ، اگر حکومت انہیں یہاں سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ کر تی ہے توہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے ۔