جموں کے استاد محلہ میں شرپسندوں کی طرف سے کی گئی ہلڑ بازی اس بات کی مظہر ہے کہ حالات خراب کرنے کیلئے منصوبہ بند طریقہ سے کوششیں کی جارہی ہیں اور مسلم طبقہ کو اشتعال دلانے کیلئے مواقع تلاش ہی نہیں کئے جارہے بلکہ دانستہ طور پرپیدا بھی کئے جارہے ہیں ۔تین روز قبل شہر کے استاد محلہ میں نماز تراویح کے دوران مسجد کے باہر موٹر سائیکلوں پر سوار کچھ شر پسندوں نے نہ صرف نمازیوں کے نام انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کی بلکہ نوجوانوں کو باہر نکل کر ان کا سامنا کرنے کے لئے بھی اکسانے کی کوشش کی۔ تاہم نماز تراویح کی وجہ سے کوئی بھی نوجوان باہر نہ نکلا ،جس کی وجہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے سے ٹل گیا۔اس واقعہ کے بعد اگرچہ مسلم طبقہ کی طرف سے پہلے پولیس اور پھر انتظامیہ سے شکایت کی گئی لیکن کسی نے ان کی بات سننے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی اورٹال مٹول کرکے ان کو واپس بھیج دیاگیا ،جس کے بعد انہیں احتجاج کرنے پر مجبور ہونا پڑا، لیکن جس طرح سے اس واقعہ کے بعد پولیس اور انتظامیہ نے چپ سادھ رکھی ہے اور شر پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ،وہ اس بات کا مظہرہے کہ شرپسندوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور وہ جب اور جیسے چاہیں ، اپنی سرگرمیاں بغیر کسی خوف و خطر انجام دے سکتے ہیں ۔ گزرےہولی کے روز تالاب کھٹیکاں مسجد کے باہر ہنگامہ آرائی ہو ، ریاسی میں بکروال کنبے کی مار پیٹ کا واقعہ ہو یاپھر اس سے پہلے جموں کے مختلف علاقوں میں انجام دیئے گئے متعددواقعات ، ہر بارانتظامیہ نے خاموشی اختیار کرلی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج شر پسند مساجد تک پہنچ چکے ہیں اور ان کی دیدہ دلیری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ نہ انہیں قانون کی پرواہ ہے اور نہ ہی کسی اور کا خوف۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کب تک حکومت اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیںگے اور شرپسندوںکو کام کرنے کی آزادی ملتی رہے گی ۔جموں ایک حساس خطہ ہے جہاں اشتعال انگیز یوں کی نہیں بلکہ بھائی چارے کو مضبوط بنانے کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے جو اپنے مذموم مقاصد کیلئے بھائی چارے ہی نہیںامن و قانون کو بھی دائو پر لگائے ہوئے ہیں ۔اگر حالات کو شر پسندوں اور انتظامیہ کے تجاہل عارفانہ پر چھوڑ دیاگیاہوتا تو جموں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہوتے لیکن بھلا ہو مسلم طبقہ اور اس کی سماجی قیادت کا، جس نے ہربار صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور امن دشمن عناصر کی کوششوں کوکامیاب نہیںہونے دیا۔ تاہم بار بار کی زیادتیوںکے سامنے آخر تک یہ صبر و تحمل برقرار رہ سکتا ہے ۔آخر تو حکومت کو کوئی نہ کوئی اقدام کرناچاہئے، نہیں تو جموں میں ایسے حالات بنائے جارہے ہیں جن سے نہ صرف بھائی چارے کی روایت کو زک پہنچ سکتی ہے بلکہ عمل اور ردعمل سے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ شرپسندوں کا ساتھ دینے کے بجائے امن وقانون کا ساتھ دیاجائے اور حالات خراب کرنے والوں کیساتھ سختی سے نمٹاجائے ۔وزیراعلیٰ پر بالخصوص یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انتہا پسند عناصر کے خلاف کھل کر سامنے آئیں، کیونکہ انہوں نے ماضی میں فرقہ وارانہ یکجہتی اور باہمی برداشت کے حوالے سے کشمیراور جموں کا موازانہ کرکے مؤخر الذکر خطے کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ آج وہیں پر فرقہ پرستوں کے لئے ٹولے کھلم کھلا سامنے آرہے ہیں اور انتظامیہ خاموش تماشائی بن کر عملی طور انکی اعانت کار بن رہی ہے۔ ایسا کیوں؟