پچھلے چند روز سے جاری شدید بارشوں سے صوبہ جموں میں جہاں سرکاری و نجی بنیادی ڈھانچے کو شدیدنقصان پہنچاہے وہیں انسانی جانوں کا ضیاں بھی ہواہے ۔بارشوں کا سلسلہ ابھی رکانہیں اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ آنے والے ایام میں لوگوں کو مزید مشکلات کاسامناکرناپڑسکتاہے ۔ صوبہ میں کئی مقامات پر سڑکوں پر ٹریفک نظام متاثر ہواہے جبکہ بجلی کے ڈھانچے کوزبردست نقصان پہنچنے کے علاوہ کئی مکانات زمیں بوس ہوئے ہیں ۔ دو روز قبل ضلع پونچھ میں تین لوگوں کی ہلاکت بھی واقع ہوئی جن میں سے دو بجلی کاکرنٹ لگنے سے جھلس گئے جبکہ ایک دریا برد ہوا۔اس موسمی صورتحال سے لوگ انتہائی پریشان ہیں اور انہیں عبورو مرور میں مشکلات کاسامناہے ۔بدقسمتی سے ہر سال موسم برسات کے دوران ایسی صورتحال کاسامناکرناپڑتاہے اور ہر برس ہی انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچتاہے تاہم حکام کی طرف سے جس قدر قبل از وقت تیاریوں میں لیت و لعل سے کام لیاجاتاہے اسی قدر مابعد تباہی مرمت کے کام میں سست روی اختیار کی جاتی ہے ۔ نتیجہ کے طور پر لوگوں کو ہر سال جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہوناپڑتاہے۔انسداد سیلاب اور مرمت کے کام پر حکومت کی طرف سے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور پانی کے نکاس و سڑکوں کی تعمیر کے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں تاہم اس سب کی قلعی برسات کے موسم میں پوری طرح سے کھل جاتی ہے اور اب کی بار بھی یہی کچھ ہواہے ۔جموں شہر کے جانی پور وبٹھنڈی سمیت کئی علاقوں میں سڑکیں بہہ گئی ہیں اور نکاسی کا نظام ٹوٹ جانے سے پانی لوگوں کے گھروں میں چلاگیاہے جس سے انہیں مالی طور پر نقصان پہنچاہے ۔وہیں صوبہ کے پہاڑی خطوں پیر پنچال و چناب میں شدید بارشوں کے دوران ندی نالوں میں طغیانی اورچٹانیں وپسیوں کے گرآنے سے معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتے ہیں اور لوگ گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہتے ۔ ان خطوں میں اس بار بھی بڑی تعداد میں مکانات کو نقصان پہنچاہے اور رابطہ سڑکیں بند ہوگئی ہیں جبکہ کئی علاقوں میں بنیادی انسانی ضرورتیں یعنی بجلی و پانی کی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے ۔ایسا ہونا یقینی بھی تھاکیوںکہ جہاں رابطہ سڑکوں کو کئی کئی سال سے تارکول بچھاکر پختہ نہ بنائے جانے سے پسیوں کا ملبہ گرآنے کے باعث راجوری کے تھنہ منڈی سمیت کئی علاقوں میں مکانات کو خطرہ لاحق ہواہے وہیں بہت سے علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاںبجلی کی ترسیلی لائنیں سرسبز درختوں سے لٹک کر انسانی جانوں کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہیں اور پونچھ کی سرنکوٹ تحصیل میں میاں بیوی کی ہلاکت بھی اس کا نتیجہ قرار دیاجارہاہے ۔ اسی طرح سے پانی کی پائپیں اس قدر بوسیدہ ہوچکی ہیں کہ ان میں بارش کے گندے پانی کے ساتھ ساتھ کیڑے مکوڑے اور مٹی وپتھر بھی رس جاتے ہیں جس سے پھر بارشوں کا سلسلہ تھم جانے کے بعد بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی ریاست میں ہر سال تباہ کن بارشیں ہوتی ہیں ،حکام کی طرف سے آج تک بچائو کیلئے کوئی مربوط لائحہ عمل مرتب نہیں کیاگیا ،جس سے نقصان کی شدت کو کم کیاجاسکے ۔جہاں فوری طور پر اقدامات کرکے بنیادی ڈھانچے کی مرمت کی جانی چاہئے وہیں مستقبل میں ایسے خطرات سے بچنے کیلئے قبل از وقت ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں جس کیلئے ضروری ہے کہ پانی کی نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ تعطل میں پڑے سڑک پروجیکٹوں کا کام معیارپر سمجھوتہ کئے بغیر پایہ تکمیل کو پہنچایاجائے ۔چونکہ بارشوں کے بیچ چلی تیز آندھی سے مکئی اور دھان کی فصلوں و سبزی و میوہ جات کو بھی نقصان پہنچاہے اس لئے اس کا تخمینہ لگاکر متاثرین کو معاوضہ دیاجائے ۔