جموں شہر میں چلنے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی من مانیاں اور ٹریفک حکام کی مبینہ لاپرواہی سے شہر کا ٹریفک نظام مسافروں کیلئے پریشانیوں کا باعث بناہواہے ۔ یوں تو پورے سال ہی لوگ شہر کے اس ٹریفک نظام سے پریشان رہتے ہیں لیکن موسم سرما کے دوران اس میں مزید خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور مسافروںکو جہاں پانچ سے دس کلو میٹر کا سفر طے کرنے میں دو دو گھنٹے ضائع کرنے پڑجاتے ہیں وہیںمیٹاڈور گاڑیوںمیںبلند آواز میں کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی موسیقی سننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔بس اڈہ جموں اور اطراف و اکناف سے ہر ایک روٹ کو نکلنے والی گاڑیاں نہ صرف ائورلوڈہوتی ہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کیلئے ڈرائیور حضرات گھنٹے لگادیتے ہیں جس کی وجہ سے مسافروں کا قیمتی وقت ضائع ہوتاہے اورکوئی بھی شخص وقت پہ اپنے کام پر نہیں پہنچ پاتا۔بعض اوقات سواریاں اُٹھانے کے لالچ میں مسافر گاڑیوں کے درمیان دوڑ لگی ہوتی ہے جس سے حادثات کا خطرہ بھی بڑھ جاتاہے ۔ چونکہ موسم سرما کے دوران کشمیر ،لداخ اور ریاست کے دوسرے حصوں سے بڑی تعداد میںلوگ جموں کا رخ کرتے ہیں اس لئے نومبر سے لیکر مارچ اپریل تک جموں کے میٹاڈور ڈرائیوروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور وہ مسافروں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی من مرضی چلاتے ہیں ۔حالت یہ ہے کہ ڈرائیور گاڑی بعد میں چلانا شروع کرتے ہیں ،فحش گانوں کا بٹن پہلے دباتے ہیں ۔شہر میں مشکل سے بھی ایسی گاڑیاں نہیں ملتی جن میں ٹیپ ریکارڈ ر کا استعمال نہ ہوتاہو۔وہ مسافروں کیلئے ذہنی تکلیف کا باعث بھی بنتے ہیں اور میوزک بند کرنے یا وقت پر منزل تک پہنچانے کی استدعا کرنے پر بدسلوکی سے بھی پیش آتے ہیں ۔میٹاڈور گاڑیوں میں کرائے کے نام پر بھی رام نام کی لوٹ مچی ہوئی ہے۔عام سی بات ہے اور اگر کوئی مسافراس بات کا صحیح علم نہیں رکھتاکہ فلاں مقام سے فلاں تک کا گاڑی کرایہ کیا ہے تو اس سے زیادہ رقم وصول کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی ۔ غرض جموں میں موسم سرما کے دوران وہی ہوتاہے جو ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کے من کو بھاتاہے اور نہ ہی وہ ٹریفک قوانین کا پاس و لحاظ کرتے ہیں اور نہ ہی مسافروں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں بہتر ٹرانسپورٹ خدمات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بس ان کا ایک ہی مقصد ہوتاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے ہاتھ آجائیں ،چاہے اس کیلئے انہیں قوانین کوہر لمحہ توڑنابھی کیوںنہ پڑے ۔گاڑیوںمیں اوور لوڈنگ کا حال یہ ہے کہ بزرگ ، خواتین اور بچے دھکے پہ دھکا کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ٹریفک قواعد کا تپا پانچہ کرنے والوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیںہوتی ۔اگرچہ محکمہ ٹریفک کے اہلکار کئی مقامات پر ڈیوٹی پر تعینات ہوتے ہیں لیکن وہ قوانین کی پاسداری کرانے میں بالکل ناکام دکھائی دے رہے ہیںاور انہیں اس بات سے کوئی غرض دکھائی نہیں دیتی کہ گاڑیوںکے اندر مسافروں کے ساتھ کیا سلوک ہورہاہے اور انہیں دوران سفر کس قدر ذہنی اذتیوں کا سامنا کرناپڑتاہے ۔شہر میں ٹریفک کے اس طرح کے نظام کوبدلنے کی ضرورت ہے اور اگر شہروں میں مسافروں کو بہتر ٹرانسپورٹ خدمات میسر نہیںہونگی تو پھر دور دراز علاقوں کے لوگ اس نظام سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔