شاہراہیں ترقی کی گزر گاہیں ہوتی ہیں۔بہتر سڑک روابط کا مطلب بلکہ معیشت ہے اور سڑک رابطوں کی خستہ حالی کا مطلب خستہ حالی معیشت ہے ۔ حکومتوں کی کوشش رہتی ہے کہ اپنی ساری آبادی کو قابل انحصار اور ہمہ موسمی سڑکوں کے ساتھ جوڑ کر زمینی سطح تک ترقی و خوشحالی پہنچائی جائے لیکن جموںوکشمیر یونین ٹریٹری میں یہ خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوپارہا ہے کیونکہ یہاں کی بنیادی اور اہم ترین شاہرائیں آج کے وقت میں قابل انحصار نہیں ہیں۔گوکہ کسی حد تک سرینگر جموں قومی شاہراہ ہمہ موسمی رہتی ہے تاہم اب سال کے بارہ مہینہ اس شاہراہ کا آئے روز بند ہوجانا معمول بن چکا ہے۔اب حالت یہ ہے کہ جموں سرینگر قومی شاہراہ پر آئے روز کے حادثات اور پسیاں و برفانی تودے گرآنے کی وجہ سے لوگ اس شاہراہ پر سفر کرنے سے بھی کترارہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب تک لوگ جموں سرینگر قومی شاہراہ پر خوفناک سفر کی کہانیاں دہراتے رہیں گے ؟ کب تک لوگ ہمہ موسمی اور قابل انحصار شاہرائوں کیلئے ترستے رہیں گے ؟ آج کے اس ترقی یافتہ میں ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس سے بھی دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں محفوظ شاہراہیں موجود ہیں جو نہ صرف ہمہ موسمی ہیں بلکہ ان پر سفر بھی حادثات سے محفوظ رہتا ہے۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو ایسی مشینیں اور طریقے مہیا رکھے ہیں جن سے پہاڑی علاقوں میں شاہرائوں کی تعمیر انتہائی آسان ہی نہیں بن چکی ہے بلکہ اب ایسی شاہرائوں کو زمین کے کٹائو کے نتیجہ میں پسیوں اور برف باری کے نتیجہ میں برفانی تودوں سے بچانے کا ایک فول پروف نظام بھی موجود ہے اور ایسی پہاڑی شاہرائوں کے خطرناک حصوں میں ٹنلوںکی تعمیر کرکے سفر کو آسان اور محفوظ بنایا جاتا ہے لیکن نہ جانے کیوں ہمارے یہاں ایسی شاہرائو ں کی حالت بدلنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے یہاں ایسی ٹیکنالوجی میسر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی شاہرائوں کی حالت کیوں نہیں بدل رہی ہے ،یہ ایک ایسا سوال ہے جو پور ے حکومتی نظام کی اہلیت پر ہی سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔اب برسہا برس سے سرینگر جموں قومی شاہراہ کی توسیع کا کام جاری ہے لیکن اس توسیعی منصوبہ کا یہ عالم ہے کہ جموں سے ادہم پور کا حصہ کب کا مکمل ہوچکا تاہم ادہم پور سے بانہال کا حصہ ابھی تقریباً ویسے کا ویسا ہی پڑا ہوا ہے اور جس رفتار سے تعمیری کام چل رہا ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے اس کی تکمیل میں ابھی برسہا برس لگ سکتے ہیں۔
جموں سرینگر قومی شاہراہ پر جس طرح ٹریفک جام معمول بن گیا ہے ،وہ مستقبل قریب میں پیش آنے والی نئی ہولناکیوں کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔شاہراہ پر ٹریفک جام کا یہ عالم ہے کہ سرینگر سے جموں تک محض8گھنٹوں کا سفر اب20کیا ،30گھنٹوں میں بھی طے نہیں ہو پاتا ہے ۔گزشتہ دو ایک برسوں کے دوران صورتحال بد سے بد ترہوتی جارہی ہے اور ہر نیا دن شاہراہ پر سفر کر نے والوں کے لئے قیامت خیز جسمانی و ذہنی تکالیف و الم کے تجربات سے دو چار کر نے والا ثابت ہو رہا ہے۔ پہلے جہاں موسم سرما میں برفباری یا برسات کے دوران بارشوں کی وجہ سے ہی شاہراہ بند ہوا کرتی تھی یا کبھی کبھار جام لگ جاتے تھے وہاں اب کسی بھی موسم میں اور کسی بھی وقت طویل ٹریفک جام لگنا اب معمول بن چکا ہے جس کے دوران روزانہ ہزاروں مسافروں کو لا متناہی اور جان لیوا مصائب سے گزرنا پڑتا ہے ۔بے آ ب و گیاہ مقامات پر بزرگوں ، خواتین اور بچوں کو جب پورا پورا دن اور رات گاڑیوں میں گذارنی پڑتی ہے تو ان کی تکلیف کا احساس حاکمان ِ اعلیٰ نہیں کر سکتے جنہیں اول تو شاہراہ پر سفر کر نے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور کبھی محض تفنن طبع کے طور پر انہوں نے اس کا فیصلہ کر بھی لیا تو اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جا تا ہے کہ ’’ صاحب ‘‘ کا سفر بہر صورت بلا رکاوٹ گزر جائے۔
اب یہ عام فہم بات ہے کہ پتنی ٹاپ اور بانہال کے درمیانی سیکٹر میں شا ہراہ کا فی تنگ اور خستہ حال ہے اور اسی سیکٹر میں شاہراہ آئے روز پسیاں اور پتھر گرآنے کی وجہ سے بند بھی ہوجاتی ہے اور ٹریفک جام بھی لگ جاتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ بے لگام چھوٹی گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات مزاجاً کافی عجلت پسند ہیں اور ٹریفک کی اخلاقیات سے انہیں خدا واسطے کا بیر رہتا ہے۔ لہٰذا اگر ان کے آگے چلنے والی گاڑی اگر محض رفتار بھی سست کر دے تو وہ اس سے آگے نکلنے کی تگ و دو شروع کر دیتے ہیں جو بیشتر اوقات طویل ٹریفک جام کا پیش خیمہ ثابت ہو جاتی ہے۔ اگر چہ متعلقہ محکموں کے حکام ہر بار اس سنگین مسئلہ سے نمٹنے کے لئے تیر بہدف نسخے ایجاد کر نے کا عزم دہراتے ہیں لیکن ابھی تک کے تجربات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ یہ کاغذی اعلانات اور اقدامات بھی محض زیبائشی قسم کے ہوتے ہیں جن کا حقیقی مرض سے دور دور تک کاواسطہ نہیں ہو تا ہے۔فی الوقت سرینگر جموںشاہراہ پر جو صورتحال پنپ رہی ہے، اس کی طرف اگر فوری طور توجہ نہ دی گئی تو اس میں مستقبل قریب میں کسی بڑے انسانی المیے کے تمام تر جزو بدرجہ اتم موجود ہیں، تاہم صرف زبانی اعلانات اور نیم دلی سے کئے گئے اقدامات اس سنگین مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کے لئے ناکافی ہیں بلکہ کوئی مستقل اور مستحکم پالیسی بنانے کے لئے بنیادی وجوہات کی تلاش کر نا اور ان کا سدِ باب کرنا انتہائی لازمی بن چکا ہے۔ سب سے پہلے شاہراہ کے ان حصوں کی کشا دگی کی ضرورت ہے جو ٹریفک کے بڑھتے دبائو کی وجہ سے کافی تنگ ثابت ہو رہے ہیں ،نیز ان مقامات کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کی جانی چاہئے جہاں پر عموماً ٹریفک جام لگ جاتے ہیں۔چونکہ یہاں ایک کے بعد ایک شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھاجارہا ہے تو لازم ہے کہ پہلے سے موجود شاہرائوں کو ہمہ موسمی بنانے کے اقدامات ترجیحی بنیادوںپر کئے جائیں تاکہ جموں وکشمیر کے سبھی علاقے آپس میں سال بھر جڑے رہ سکیں اور جموںوکشمیر کا بیرون دنیا سے بھی زمینی رابطہ ہمہ موسمی رہے۔