طویل خشک سالی کے بہ سبب پیدا شدہ پانی کی قلت اور محکمہ پی ایچ ای کی طرف سے متبادل انتظام نہ کئے جانے کے باعث صوبہ جموں میں عوام کو زبردست پریشانیوں کا سامنا ہے اورپچھلے کچھ ہفتوںسے اس معاملے پر احتجاجی مظاہرے روزکا معمول بن گئے ہیں۔پینے کے پانی کے حوالہ سے خطہ بھر میں صورتحال دن بدن سنگین بنتی جارہی ہے اور پانی کے ذخائر سکڑتے جارہے ہیں جس سے ا س کی سپلائی میں کمی واقع ہورہی ہے ۔خاص طور پر ماہ صیام کے دوران لوگ شدید مشکلات کاشکار ہیںتاہم حکام کی طرف سے بھی اس بات کا انتظار کیاجارہاہے کہ کب بارشیں ہوںگی اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوگی جس کے بعد وہ سپلائی میں بہتر ی لانے کی کوشش کرینگے۔بحرانی کیفیت میں کہیں کہیں پانی کی غیر قانونی طور پر فروخت کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں اور جہاں عام لوگوں کو پینے کا پانی نہیں مل رہاوہیں اسے نجی گاڑیوں کے ذریعہ فروخت کیاجارہاہے ۔دو روزقبل مینڈھر میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیاجب محکمہ کے ایک ملازم کو انتظامیہ نے رنگے ہاتھوں پانی فروخت کرتے پایا،جس پر اسے حراست میں بھی لیاگیا۔لوگوں کی طرف سے یہ الزامات بھی عائد کئے جارہے ہیں کہ پانی کی سپلائی اثرورسوخ کی بنیاد پرہوتی ہے اور عام آبادی کا کسی کو بھی خیال نہیں ۔یہ شکایات اور الزامات اپنی جگہ درست بھی ہوسکتے ہیں تاہم اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ حالیہ مہینوں کی طویل خشک سالی کے باعث پانی میں بہت زیادہ کمی آئی ہے اوراسی کا نتیجہ ہے کہ لوگ بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں ۔جموںسے لیکر پونچھ تک ہر ایک علاقے میں سپلائی کم پڑرہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ محکمہ پی ایچ ای کے خلاف احتجاج کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔جموں شہر میں بھی قلت ِ آب کا مسئلہ درپیش ہے اور25فیصد پانی کم سپلائی پڑرہا ہے ۔ جموں میں 262ٹیوب ویل نصب کرنے کے علاوہ 3فلٹریشن پلانٹ تعمیر کئے گئے ہیں لیکن یہ صارفین کی ضروریات پورا کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔شہر میں صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے روزانہ 65ملین گیلن پانی درکار ہے تاہم اس وقت صرف 50ملین گیلن پانی ہی دستیاب ہورہاہے ، اس طرح سے روزانہ 15ملین گیلن کی کمی کاسامناہے ۔ اگر چہ ماضی میں بھی گرمیوں کے موسم میں پانی کی قلت پیش آتی رہی ہے لیکن امسال یہ صورتحال خطرناک بنتی جارہی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ محکمہ کی طرف سے ٹینکروں کے ذریعہ بھی پانی سپلائی کیاجاتاہے تاہم یہ ٹینکر انہی علاقوںتک پہنچ سکتے ہیں جو سڑک روابط سے جڑے ہوتے ہیں جبکہ چناب اور پیر پنچال کے پہاڑی اور دشوار گزار خطوں میں متعدد ایسے علاقے ہیںجہاںاس دور جدید میں بھی دور دور تک سڑک رابطوں کا نام و نشان نہیںہے۔سڑکیں نہ ہونے کے باعث ان علاقوں میں ہینڈ پمپ بھی نصب نہیں کئے جاسکتے جبکہ نصب شدہ ہینڈ پمپوں کا بھی یہ حال ہے کہ ان میںسے بیشتر ناکارہ پڑے ہوئے ہیں اور ان کو ٹھیک کرانے کی زحمت گوارہ نہیں کی جارہی ۔اسی طرح سے پانی کی بیشتر لفٹ سکیمیں بھی بیکار پڑی ہوئی ہیں جن کی دیکھ ریکھ کا بھی کوئی انتظام نہیں۔بے شک موجودہ صورتحال کیلئے خشک سالی کو ذمہ دار ٹھہرایاجاسکتاہے لیکن محکمہ پی ایچ ای بھی اس صورتحال سے بری الذمہ نہیںکیونکہ مذکورہ محکمہ نے مناسب پیمانے پر متبادل انتظامات کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا ۔ اگر وقت پر ہینڈ پمپوں اور لفٹ سکیموں کی مرمت کرکے انہیں قابل استعمال حالت میں رکھاگیاہوتا تو یقینا آج یہ صورتحال درپیش نہیں ہوتی اور خطہ بھر کی پوری آبادی کو نہ سہی البتہ کچھ حد تک آبادی کو پانی آسانی سے سپلائی کیاجاسکتاتھاتاہم محکمہ پر بھی اپنی خدمات کے تئیں غیر سنجیدگی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور آج بھی اس کے ورک کلچر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ روایتی آبی ذخائر کو تحفظ دیتے ہوئے نئے متبادل تلاش کئے جائیں۔