اگرچہ صوبہ جموں میں پولیس منشیات فروشی کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کے دعوے کررہی ہے اور کئی بدنام زمانہ منشیات فروشوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرکے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاگیاہے لیکن پھر بھی جو اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں اور ان سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ صوبہ میں نشیلی ادویات اور اشیاء کا کاروبار عروج پر ہے ۔حال ہی میں پیش کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے پچھلے 8ماہ کے دوران جموں خطہ میں ریاستی پولیس نے40کلو گرام ہیروئین،580 کلو چرس،142 کلو گانجا اور مختلف اقسام کے 60 ہزار کیپسول صوبے کے مختلف حصوں میں ضبط کئے ہیں۔حکام نے منشیات کا قلع قمع کرنے کیلئے اب منشیات فروشوں کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی رینج سطح پر فورینسک لیبارٹریاں قائم کرنے، سرحدی علاقوں میں بنکر تعمیر کرنے، نئے قائم کئے گئے اضلاع میں افرادی قوت کی قلت کو دور کرنے، کنڈم گاڑیوں کی نیلامی،ٹریفک قوانین میں ترامیم اور جرمانہ میں اضافہ، کریمنل جسٹس نظام میں بہتری لانے اور جیلوں میں قید افراد کے بیان ریکارڈ کرنے کے لئے ویڈیو کانفرنسنگ کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔منشیات سماج کیلئے اس قدر تباہ کن ہے کہ پولیس اسے بندوق سے بھی زیادہ خطرناک مان رہی ہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ خود پولیس اہلکار بھی اس کاروبار کی سرگرمیوں میں ملوث پائے جارہے ہیں اورحالیہ عرصہ میں کچھ ایسے اہلکاروں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے ۔ آج پولیس افسران کے سامنے سب سے پہلے ترجیح منشیات کا خاتمہ ہی ہے اور کوئی بھی نیا افسر تعیناتی کے پہلے روز اسی عزم کا اظہار کرتاہے کہ وہ منشیات کا قلع قمع کرکے چھوڑے گالیکن الٹا اس کاروبار میں دن بدن اضافہ ہی ہوتاجارہاہے اور نوجوان طبقہ کی جانب سے اس کا استعمال بڑھتاہی جارہاہے ۔پولیس کے دعوے اور افسران کے عہد و پیمان اپنی جگہ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسے کون سے لوگ ہیںجو نئی نسل کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ کس طرح سے نمٹاجاسکتاہے ۔آج والدین اور پورا سماج نوجوانوں کے مستقبل پر متفکر ہے اور ایسا ہونا لازمی بھی ہے کیونکہ اسی وجہ سے کئی نوجوانوں کی موت بھی ہوچکی ہے اور کئی اپنا مستقبل تباہ کرچکے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پولیس کی کارروائی اور سماجی سطح پر بیداری کے باوجود کیونکر یہ لعنت فروغ پاتی جارہی ہے ۔آخر وہ کونسے عناصر ہیں جو سماجی تانے بانے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔جہاں اس لعنت میں مقامی نوجوان ملوث ہیں وہیں بیرون ریاست سے بھی بڑی تعداد میں نشیلی ادویات ریاست وارد ہورہی ہیں ،جس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ اسکے پس پردہ ایک مکمل مافیا کا م کر رہا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر مافیا اپنے سیاسی تعلقات کی وجہ سے ہی متحرک ہوتا ہے۔ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ منشیات فروشی کا دھندہ کرنے والوں کے خلاف کڑی کارروائی کی جائے اور اس کی شروعات خود پولیس سے ہونی چاہئے کیونکہ اگر پولیس اہلکار خود ایمانداری سے فرائض انجام دیںگے تو پھر نہ ہی بیرون ریاست سے نشیلی ادویات ریاست میں داخل کی جاسکیںگی اور نہ ہی اندرون ریاست بغیر کسی خوف و خطرے کے اسے نوجوان نسل میں منتقل کیاجاسکے گا۔اس طرح سے کڑی نگرانی رہے گی اور اس دھندہ کا فروغ پانے کے بجائے قلع قمع ہوگا۔